
AMN
ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے ایک ایسے قانون پر دستخط کر دیے ہیں جس کے تحت اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے “بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی ( آئی اے ای اے )” کے ساتھ تعاون معطل کر دیا گیا ہے۔ ایرانی سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ فیصلہ ایران کے جوہری پروگرام پر بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ جاری کشیدگی کے تناظر میں ملک کا اب تک کا سب سے سخت اقدام ہے۔
یہ قانون ایران کی پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت سے منظور کیا گیا، جس میں 290 رکنی ایوان میں سے 221 اراکین نے اس کے حق میں ووٹ دیا، ایک نے غیر جانبداری اختیار کی جبکہ کسی نے مخالفت نہیں کی۔ اس کے بعد ملک کے آئینی نگراں ادارے کی منظوری حاصل ہونے کے بعد اسے صدر نے باضابطہ طور پر نافذ کر دیا۔
یہ فیصلہ اس عسکری کشیدگی کے بعد سامنے آیا ہے جو 13 جون کو اسرائیل کی جانب سے ایرانی جوہری اور فوجی تنصیبات پر بمباری سے شروع ہوئی۔ جواباً ایران نے اسرائیلی اہداف پر میزائل اور ڈرون حملے کیے۔ اس کے بعد امریکہ نے 22 جون کو ایران کے اہم جوہری مراکز — فردو، نطنز اور اصفہان — پر حملے کیے۔ ایران نے ان حملوں کو “سفاکانہ جارحیت” قرار دیا اور اپنے جوہری پروگرام کو ترک نہ کرنے کا اعلان کیا۔ بارہ دن تک جاری رہنے والی یہ جھڑپ بالآخر 24 جون کو امریکہ کی ثالثی میں جنگ بندی پر ختم ہوئی۔
ایرانی حکام نے آئی اے ای اے پر اس ساری کشیدگی کے دوران خاموش تماشائی بنے رہنے کا الزام عائد کیا ہے، جس سے ادارے کے ساتھ ایران کے تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔ تعاون کی معطلی ایران کے جوہری مؤقف میں نمایاں شدت کی علامت ہے اور خطے میں بڑھتی ہوئی بے چینی کے درمیان ایک نیا موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔
اس اقدام کے نتیجے میں ایران کے جوہری پروگرام پر آئی اے ای اے کی نگرانی کس حد تک ممکن رہے گی، یہ تاحال غیر یقینی ہے، مگر عالمی سلامتی اور شفافیت کے لیے یہ ایک تشویشناک پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔