
کٹھمنڈو۔
نیپال کی حکومت نے نوجوانوں کے پُرتشدد مظاہروں کے بعد سوشل میڈیا پر لگائی گئی پابندی ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ان مظاہروں میں کم از کم 19 افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات پرتھوی سبّا گرونگ نے ہنگامی کابینہ اجلاس کے بعد اعلان کیا کہ حکومت نے فیس بک، ایکس (ٹویٹر) اور واٹس ایپ سمیت تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی بحالی کا حکم دے دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزارت نے متعلقہ اداروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ فوری طور پر ان پلیٹ فارمز کو فعال کریں، تاکہ نوجوانوں کی ان مطالبات کو تسلیم کیا جاسکے جو کٹھمنڈو میں پارلیمنٹ کے باہر ہونے والے بڑے احتجاج میں سامنے آئے تھے۔
یاد رہے کہ حکومت نے تین روز قبل 26 سوشل میڈیا ویب سائٹس پر یہ کہہ کر پابندی لگائی تھی کہ انہوں نے نیپال میں لازمی رجسٹریشن نہیں کروایا۔ تاہم صورت حال اس وقت کشیدہ ہوگئی جب مظاہرین پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہوگئے۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پانی کی توپیں، آنسو گیس اور براہِ راست فائرنگ کا سہارا لیا۔
وزیراعظم کے پی شرما اولی نے واقعے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جاں بحق افراد کے لواحقین کو مالی معاوضہ دیا جائے گا اور زخمیوں کا علاج سرکاری خرچ پر ہوگا۔ مظاہروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کٹھمنڈو، پوکھرا، بُٹول-بھیرہوا اور اٹہری سمیت کئی شہروں میں کرفیو نافذ کیا گیا تھا۔
دوسری جانب، وزیر داخلہ رمیش لیکھک نے اخلاقی بنیادوں پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ انہیں اپنی ہی پارٹی اور اپوزیشن دونوں جانب سے شدید دباؤ کا سامنا تھا۔ مبصرین کے مطابق یہ واقعہ نیپال میں حالیہ برسوں کے سب سے خونریز کریک ڈاؤن میں شمار کیا جارہا ہے۔
