
کٹھمنڈو۔ AMN
نیپال میں پُرتشدد عوامی احتجاجات کے بعد وزیراعظم کے پی شرما اولی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ فیصلہ اُس وقت سامنے آیا جب پیر کے روز ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کے دوران پولیس فائرنگ اور سخت کریک ڈاؤن میں کم از کم 19 افراد ہلاک اور 400 سے زائد نوجوان زخمی ہوگئے۔ حکومت کے خلاف یہ عوامی غصہ بنیادی طور پر بدعنوانی، ناقص طرزِ حکمرانی اور سماجی ناانصافیوں کے خلاف ابھرا تھا۔
خونریز دن اور عوامی ردِعمل
پیر کے روز شروع ہونے والے احتجاجات میں زیادہ تر نوجوان اور طلبہ شریک تھے، جنہیں ’’جن زی موومنٹ‘‘ کہا جارہا ہے۔ یہ تحریک اُس وقت شدت اختیار کرگئی جب مظاہرین کٹھمنڈو میں پارلیمنٹ کی عمارت کے اندر داخل ہوگئے اور وہاں شدید ہنگامہ آرائی کی۔ پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس، پانی کی توپیں اور براہِ راست فائرنگ کا استعمال کیا۔ اس کے نتیجے میں ایک دن کے اندر اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں جو حالیہ برسوں میں نیپال کے لیے غیر معمولی واقعہ ہے۔
اولی پر دباؤ اور استعفیٰ
کے پی شرما اولی جولائی 2024 سے چوتھی بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز تھے۔ انہیں نیپالی کانگریس کی حمایت حاصل تھی۔ لیکن حالیہ خونریز واقعات کے بعد اُن پر دباؤ بڑھتا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے ان کی حکومت پر ’’نہتے مظاہرین کے خلاف مہلک طاقت کے استعمال‘‘ کا براہِ راست الزام لگایا۔ اپوزیشن نے کہا کہ اولی حکومت نے عوامی آواز کو دبانے کے لیے ریاستی مشینری کو بطور ہتھیار استعمال کیا، جس سے عوام اور حکومت کے درمیان خلیج مزید گہری ہوگئی۔
اولی کا استعفیٰ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب اُن کی سیاسی ساکھ پہلے ہی کمزور پڑ رہی تھی۔ وہ ماضی میں 2015–16، 2018–21، مختصر طور پر 2021 اور پھر جولائی 2024 سے اقتدار میں رہے۔ ان کی سیاست ہمیشہ ایک مضبوط قوم پرستانہ بیانیے اور ’’استحکام اور خوشحالی‘‘ کے وعدوں پر مبنی رہی، لیکن عملی طور پر ان وعدوں کو پورا نہ کرنے اور اقتدار پر گرفت برقرار رکھنے کی کوششوں نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔

کرفیو اور احتجاج کی وسعت
حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے حکومت نے کٹھمنڈو، پوکھرا، بھیرہوا–بٹول اور اٹہری سمیت بڑے شہروں میں کرفیو نافذ کردیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود احتجاج رُکا نہیں بلکہ مزید شہروں تک پھیل گیا۔ مظاہرین نے کئی وزیروں اور اہم رہنماؤں کے گھروں پر بھی حملے کیے، جن میں ڈپٹی وزیراعظم بشنو پاؤڈیل، سابق وزیراعظم شیر بہادر دیوبا اور اپوزیشن لیڈر پشپا کمل دہل کے گھر شامل ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوامی ناراضگی محض حکومت تک محدود نہیں بلکہ پورے سیاسی ڈھانچے کے خلاف بڑھ رہی ہے۔
آئندہ کا منظرنامہ
وزیراعظم کے استعفے کے بعد سیاسی منظرنامے میں ایک نیا بحران پیدا ہوگیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا نیپال کی سیاسی جماعتیں عوامی مطالبات—شفافیت، احتساب اور نظام کی اصلاح—کو سنجیدگی سے لیں گی یا محض اقتدار کی کشمکش میں الجھی رہیں گی۔ اپوزیشن جماعتوں نے قبل از وقت انتخابات کی بات شروع کردی ہے جبکہ سویل سوسائٹی اور طلبہ تنظیمیں مطالبہ کررہی ہیں کہ ایک غیر جانبدار کمیشن بنا کر نہ صرف حالیہ کریک ڈاؤن کی تحقیقات کی جائیں بلکہ بدعنوانی کے خلاف بھی عملی اقدامات کیے جائیں۔
کے پی شرما اولی کا استعفیٰ نیپال کی حالیہ تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے۔ یہ نہ صرف ایک وزیراعظم کے زوال کی کہانی ہے بلکہ ایک ایسے معاشرے کا عکس ہے جو انصاف، شفافیت اور بہتر حکمرانی کی تلاش میں ہے۔ نوجوانوں کی یہ تحریک، جسے ’’جن زی موومنٹ‘‘ کہا جا رہا ہے، مستقبل میں نیپال کی سیاست کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے۔ اگر سیاسی طبقہ اس پیغام کو نہ سمجھ پایا تو نیپال مزید عدم استحکام اور عوامی غصے کے بھنور میں ڈوب سکتا ہے۔
