بدلتے عالمی حالات میں خودانحصاری اور یکجہتی کی ضرورت

عندلیب اختر
دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ عالمی معیشت، سیاست اور سماج ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان فاصلہ اب محض اقتصادی نہیں بلکہ تکنیکی، ماحولیاتی اور فکری بھی بن چکا ہے۔ اس بدلتی دنیا میں ترقی پذیر ممالک، جنہیں عموماً“جنوبی دنیا”کہا جاتا ہے، اپنے وجود اور ترقی کی نئی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ قرضوں کے بڑھتے بوجھ، مہنگائی، سیاسی عدم استحکام، ماحولیاتی آفات اور ڈیجیٹل عدم مساوات نے ان ممالک کے لیے چیلنجز کی ایک طویل فہرست کھڑی کر دی ہے۔مگر انہی چیلنجز کے درمیان ایک نئی سوچ جنم لے رہی ہے — وہ سوچ جو دوسروں پر انحصار کے بجائے خودانحصاری اور باہمی تعاون کو ترقی کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ یہی وہ نظریہ ہے جسے آج“جنوب-جنوب تعاون”کہا جاتا ہے، یعنی ترقی پذیر ممالک کا ایک دوسرے کے ساتھ علم، ٹیکنالوجی، تجربات اور وسائل کا اشتراک تاکہ ترقی کا راستہ مقامی بنیادوں پر تعمیر ہو، نہ کہ بیرونی شرطوں پر۔

جنوب-جنوب تعاون کا تصور اور اہمیت
جنوب-جنوب تعاون کوئی نیا نظریہ نہیں، لیکن اب یہ ایک عالمی تحریک کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک، جو ایک جیسے مسائل سے دوچار ہیں، ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھیں اور ان کے عملی حل تلاش کریں۔ مثلاً اگر کسی ملک نے غربت میں کمی یا زراعت میں جدت کا کامیاب ماڈل اپنایا ہے، تو دوسرا ملک اسے اپنے حالات کے مطابق اختیار کر سکتا ہے۔


یہ تعاون مغربی دنیا کے روایتی امدادی ماڈل سے بالکل مختلف ہے۔ وہاں امداد کے ساتھ سیاسی یا اقتصادی شرائط منسلک ہوتی ہیں، جب کہ جنوبی تعاون برابری، خودمختاری اور باہمی اعتماد پر مبنی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماڈل ترقی پذیر دنیا کے لیے زیادہ پائیدار سمجھا جا رہا ہے۔


اقوامِ متحدہ نے اس رجحان کو باقاعدہ شکل دینے کے لیے“اقوامِ متحدہ کا دفتر برائے جنوب-جنوب تعاون”(UNOSSC) قائم کیا۔ یہ ادارہ ترقی پذیر ممالک کے درمیان پالیسی سازی، تکنیکی معاونت، اور ترقیاتی منصوبوں کی ہم آہنگی میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔UNOSSC کی ڈائریکٹر دیما خطیب کے مطابق:“جنوبی دنیا دنیا کی تقریباً 80 فیصد آبادی پر مشتمل ہے۔ ان کے پاس انسانی وسائل، زرخیز زمینیں، معدنیات، اور ٹیکنالوجی سیکھنے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ مگر بدقسمتی سے ان وسائل کو منظم انداز میں استعمال نہیں کیا گیا۔ اب وقت ہے کہ یہ ممالک اپنی اجتماعی طاقت پہچانیں اور اپنے مستقبل کی سمت خود طے کریں۔”


کامیاب تجربات اور عملی مثالیں
جنوبی تعاون کے تحت کئی ممالک نے ایسے منصوبے شروع کیے جنہوں نے دنیا بھر میں توجہ حاصل کی۔مراکش نے افریقہ کے سب سے بڑے شمسی توانائی منصوبے نور سولر کمپلیکس کا آغاز کیا۔ اس منصوبے کی کامیابی نے براعظم افریقہ کے دیگر ممالک کو بھی قابلِ تجدید توانائی کی طرف راغب کیا۔سعودی عرب نے اپنی سمندری پانی صاف کرنے کی ٹیکنالوجی ان ممالک کے ساتھ شیئر کی جو خشک سالی اور پانی کی قلت سے دوچار ہیں۔متحدہ عرب امارات کا مصدر سٹی دنیا میں ماحول دوست شہری منصوبہ بندی کی علامت بن چکا ہے۔اسلامی ترقیاتی بینک نے اپنے 57 رکن ممالک میں جدید آبپاشی، پائیدار زراعت، اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے منصوبے شروع کیے ہیں جن سے لاکھوں افراد مستفید ہو رہے ہیں۔یہ مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ جنوبی دنیا کے ممالک اگر ایک دوسرے کی کامیابیوں سے سیکھیں تو ترقی کے راستے کھل سکتے ہیں، بغیر کسی بیرونی انحصار کے۔


نئے مالیاتی ماڈل کی تشکیل
دنیا کے شمالی ممالک سے ملنے والی امداد میں کمی کے باعث ترقی پذیر ممالک نے اپنی مالیاتی حکمتِ عملیوں کو ازسرِ نو ترتیب دینا شروع کیا ہے۔ اب وہ خود اپنے وسائل پیدا کر رہے ہیں اور علاقائی تعاون کے ذریعے ترقیاتی فنڈ قائم کر رہے ہیں۔مثلاً انڈیا-یو این ڈیولپمنٹ پارٹنرشپ فنڈ اور انڈیا-برازیل-ساؤتھ افریقہ (IBSA) فنڈ نے کئی افریقی اور ایشیائی ممالک میں صحت، تعلیم، زراعت، اور خواتین کی ترقی کے منصوبوں کو کامیابی سے آگے بڑھایا ہے۔اسی طرح ایتھوپیا، روانڈا اور پیراگوئے نے جنوبی تعاون کے ماڈل کو اپناتے ہوئے ہزاروں نئی نوکریاں پیدا کیں، مقامی صنعتوں کو فروغ دیا اور اپنی معیشت کو مستحکم کیا۔
کثیرالفریقی نظام میں نئی جان
جنوب-جنوب تعاون نے بین الاقوامی تعلقات کے روایتی ڈھانچے میں بھی ایک نئی روح پھونکی ہے۔ یہ عمل“کثیرالفریقی تعاون ”(Multilateralism) کو مضبوط کر رہا ہے، جہاں فیصلے طاقتور ملکوں کے بجائے باہمی اتفاقِ رائے سے کیے جاتے ہیں۔
دیما خطیب کے بقول:“دنیا کو اب شمال اور جنوب میں بانٹنے کے بجائے ایک پل کی ضرورت ہے۔ اقوامِ متحدہ کا مقصد یہی ہے کہ عالمی تعاون کو توازن اور انصاف کی بنیاد پر استوار کیا جائے۔”
پائیدار ترقی کی جانب ایک نیا سفر
ماہرین کے مطابق اگر جنوبی ممالک ایک منظم حکمتِ عملی کے تحت اپنے تجربات، علم اور وسائل کا تبادلہ کریں تو پائیدار ترقی کے 17 عالمی اہداف (SDGs) کو حاصل کرنے میں نمایاں تیزی آ سکتی ہے۔ غربت کا خاتمہ، معیاری تعلیم، صنفی مساوات، صاف توانائی، اور ماحولیاتی تحفظ جیسے مقاصد اسی باہمی اشتراک سے ممکن ہیں۔یہ تعاون صرف ایک معاشی حکمتِ عملی نہیں بلکہ ایک فکری انقلاب بھی ہے — ایک ایسا نظریہ جو خودانحصاری، شراکت داری، مساوات اور باہمی اعتماد کو ترقی کی بنیاد بناتا ہے۔


دنیا اب ایک نئے دور کے دہانے پر ہے، جہاں طاقت کا مرکز وہ ممالک بن سکتے ہیں جو تعاون، جدت اور خودمختاری پر یقین رکھتے ہیں۔ جنوبی دنیا کے پاس مواقع کی ایک وسیع دنیا موجود ہے — صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو پہچانے، اپنے تجربات کا اشتراک کرے اور مشترکہ ترقی کے راستے پر قدم بڑھائے۔جنوب-جنوب تعاون دراصل اس سوچ کی علامت ہے کہ ترقی دوسروں کے رحم و کرم پر نہیں بلکہ اپنی صلاحیتوں، وسائل اور اتحاد سے ممکن ہے۔ یہی مستقبل کی دنیا کا حقیقی چہرہ ہے — جہاں جنوب خود اپنے شمال کی راہیں طے کرے گا۔

AMN