
واشنگٹن:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تسلیم کیا ہے کہ روسی تیل کی خریداری پر بھارت پر بھاری محصولات عائد کرنے کے فیصلے سے دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا۔ تاہم انہوں نے زور دیا کہ واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان تجارتی مذاکرات مثبت انداز میں جاری ہیں۔
ایک نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ بھارتی تیل پر 50 فی صد محصول لگانا “آسان فیصلہ نہیں تھا” لیکن یہ قدم روسی صدر ولادیمیر پوتن پر دباؤ ڈالنے کی وسیع تر حکمتِ عملی کا حصہ تھا تاکہ یوکرین میں جاری جنگ ختم ہو سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی انتظامیہ روس پر مزید سخت اقتصادی اقدامات کرے گی، جن میں نئے محصولات بھی شامل ہوں گے۔
اسی دوران، بھارت کے لیے نامزد امریکی سفیر سرجیو گور نے سینیٹ میں تصدیقی سماعت کے دوران نئی دہلی کو ایک “اسٹریٹجک شراکت دار” قرار دیا۔ انہوں نے زور دیا کہ بھارت کو روسی تیل پر انحصار کم کرنے پر آمادہ کرنا ٹرمپ انتظامیہ کی اولین ترجیح ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے انکشاف کیا کہ امریکا اور بھارت ایک تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دینے کے قریب ہیں۔
گزشتہ ہفتے صدر ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ بھارت کے ساتھ تجارتی مذاکرات دوبارہ شروع ہو چکے ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو “بہت اچھا دوست” قرار دیا اور کہا کہ دونوں رہنما آئندہ ہفتوں میں بات چیت کریں گے۔
صدر ٹرمپ کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ بھارت-امریکا شراکت داری مضبوط ہے اور انہوں نے جاری تجارتی مذاکرات کے مثبت نتائج پر اعتماد ظاہر کیا۔
