مسائل ’’دو بار حل‘‘ ہونے کا دعویٰ حقیقت سے بعید: ڈھاکہ

ڈھاکہ سے ذاکر حسین
بنگلہ دیش نے پاکستان کے اس مؤقف کو دوٹوک الفاظ میں رد کر دیا ہے کہ 1971 کی جنگِ آزادی سے جڑے دیرینہ تنازعات، جن میں نسل کشی پر باضابطہ معافی کا مطالبہ بھی شامل ہے، ماضی میں ’’دو بار حل‘‘ ہو چکے ہیں۔
اتوار کو ڈھاکہ میں پاکستان کے نائب وزیرِاعظم و وزیرِخارجہ اسحاق ڈار سے بات چیت کے بعد بنگلہ دیش کے امورِ خارجہ کے مشیر محمد توحید حسین نے کہا:
’’یقیناً میں متفق نہیں ہوں۔ اگر ہم متفق ہوتے تو مسئلہ اُن کے دعوے کے مطابق حل ہو گیا ہوتا، ہے نا؟ ہم نے اپنا مؤقف پیش کیا اور انہوں نے اپنا۔‘‘
اس سے قبل اسحاق ڈار، جو 13 برس بعد کسی پاکستانی وزیرِخارجہ کے طور پر ڈھاکہ کے سرکاری دورے پر آئے ہیں، نے کہا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کوئی زیرِالتوا مسئلہ باقی نہیں رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’1974 میں یہ معاملہ تحریری طور پر حل ہوا تھا۔ وہ دستاویز تاریخی ہے اور دونوں ملکوں کے پاس موجود ہے۔ بعد میں جب جنرل پرویز مشرف یہاں آئے تو انہوں نے بہت کھلے انداز میں اس معاملے کو تسلیم کیا۔ اس طرح یہ مسئلہ دو بار حل ہوا۔‘‘ ڈار نے زور دیا کہ ’’بھائیوں کے درمیان ایک بار کوئی معاملہ طے ہو جائے تو وہ مکمل ہو جاتا ہے،‘‘ اور دونوں ممالک کو ’’دل صاف کرنے‘‘ کی اپیل کی۔
تاہم ڈھاکہ کا کہنا ہے کہ کئی اہم امور اب بھی غیر حل شدہ ہیں۔ بنگلہ دیش بارہا اسلام آباد سے 1971 میں پاکستانی فوج کی جانب سے کی گئی مبینہ زیادتیوں اور نسل کشی پر باضابطہ معافی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ اس وقت اندازاً 30 لاکھ افراد ہلاک ہوئے جبکہ تین لاکھ سے زیادہ خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش آزادی کے وقت پاکستان کے ذمہ باقی رہ جانے والے تقریباً 4.5 ارب ڈالر کے اثاثوں کی واپسی اور نصف صدی سے زائد عرصے سے پھنسے ہزاروں بہاریوں کی واپسی کا بھی تقاضا کرتا ہے۔
توحید حسین نے تصدیق کی کہ یہ تمام معاملات وزارتی سطح کے مذاکرات میں اٹھائے گئے، لیکن ساتھ ہی خبردار کیا کہ فوری پیش رفت کی توقع نہ رکھی جائے۔ ان کا کہنا تھا:
’’آپ یہ توقع نہیں کر سکتے کہ 54 برس پرانے مسئلے کا حل ایک گھنٹے کی میٹنگ میں نکل آئے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ دونوں ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے ہی نکلے گا، لیکن مؤقف میں اب بھی خاصا فاصلہ موجود ہے۔
اس کے باوجود، ڈھاکہ اور اسلام آباد نے تعاون کے کئی پہلو اجاگر کیے۔ اتوار کو دونوں ممالک کے درمیان سفارتی اور سرکاری پاسپورٹ رکھنے والوں کے لیے ویزا ختم کرنے کا معاہدہ ہوا، جب کہ پانچ مفاہمتی یادداشتوں پر بھی دستخط کیے گئے۔ ان میں تجارت و کاروبار پر مشترکہ ورکنگ گروپ کی تشکیل، ثقافتی تبادلہ، دونوں ممالک کی فارن سروس اکیڈمیوں میں تعاون، خبر رساں ایجنسیوں کے مابین شراکت داری اور دو تھنک ٹینکس کے درمیان تعلقات شامل ہیں۔ اسی دوران 2025 تا 2028 کا تین سالہ ثقافتی تبادلہ پروگرام بھی حتمی شکل دی گئی۔
اسحاق ڈار نے ان مذاکرات کے نتائج کو ’’ایک شاندار آغاز‘‘ قرار دیا اور کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعاون بڑھانے کی بے پناہ گنجائش ہے۔ اس وقت دونوں ممالک کی دو طرفہ تجارت صرف 865 ملین ڈالر ہے، جو ان کے مطابق ’’باآسانی ایک ارب ڈالر سے تجاوز کر سکتی ہے‘‘۔ انہوں نے کراچی اور چٹاگانگ کے درمیان براہِ راست جہاز رانی کی بحالی کا خیر مقدم کیا اور اعلان کیا کہ جلد ہی براہِ راست پروازیں بھی شروع کی جائیں گی۔
بنگلہ دیش کی جانب سے پاکستانی منڈیوں تک زیادہ رسائی کا مطالبہ کیا گیا، خاص طور پر ٹیکسٹائل، ادویات، زراعت، مچھلی، مویشی اور آئی ٹی کے شعبوں میں۔ اس کے علاوہ اعلیٰ تعلیم، بنگلہ دیشی طلبہ کے لیے اسکالرشپ، اور میڈیکل سائنسز و انجینئرنگ میں تعاون پر بھی زور دیا گیا۔ روہنگیا بحران بھی زیرِبحث آیا، جہاں ڈھاکہ نے میانمار کو پناہ گزینوں کی محفوظ واپسی یقینی بنانے کے لیے پاکستان کی حمایت طلب کی۔
اپنے دورے کے دوران ڈار نے سیاسی روابط بھی استوار کیے۔ انہوں نے عبوری چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس سے ملاقات کی، کمرس ایڈوائزر شیخ بشیرالدین سے ناشتہ کیا، اور علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں میں بی این پی، جماعتِ اسلامی اور این سی پی کے رہنماؤں سے بھی ملے۔ ہفتے کی شام وہ سابق وزیراعظم اور بی این پی چیئرپرسن بیگم خالدہ ضیا کی عیادت کے لیے ان کی رہائش گاہ گئے۔
ڈار نے اپنے بیانات میں مسلسل مفاہمت اور مستقبل کی جانب دیکھنے کی اپیل کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’آج دونوں ملکوں کی نئی نسلیں زیادہ گہرے دوستانہ تعلقات کی خواہاں ہیں‘‘، اگرچہ انہوں نے تسلیم کیا کہ حساس تاریخی تنازعات کے حل کے لیے ’’مسلسل رابطے‘‘ درکار ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دونوں ممالک کو خطے میں تعاون بڑھانے، خاص طور پر سارک کی بحالی اور انسانی بحرانوں جیسے غزہ میں جنگی جرائم کی مخالفت کے لیے یکساں مؤقف اپنانا چاہیے۔
انہوں نے اختتام پر کہا:
’’پاکستان سمجھتا ہے کہ ہمارے تعلقات نیک نیتی اور باہمی احترام پر مبنی ہونے چاہئیں، تاکہ دونوں عوام کے مفاد میں آگے بڑھا جا سکے۔ میری یہ ڈھاکہ یاترا، ایک دہائی سے زائد کے وقفے کے بعد، اس نئے دور کے آغاز کی نشاندہی کرتی ہے۔‘‘
