Welcome to The Indian Awaaz   Click to listen highlighted text! Welcome to The Indian Awaaz

وفاقی امیگریشن چھاپوں پر حکام میں اختلاف

لاس اینجلس، 12 جون:
لاس اینجلس میں پچھلے ہفتے سے جاری احتجاجی مظاہروں کے دوران اب تک 380 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ یہ مظاہرے وفاقی امیگریشن اداروں کی جانب سے کی گئی چھاپہ مار کارروائیوں کے خلاف شروع ہوئے تھے۔ لاس اینجلس پولیس ڈیپارٹمنٹ (LAPD) کے مطابق مظاہرے ابتدائی طور پر پُرامن تھے، لیکن بعض مقامات پر کشیدگی اور جھڑپوں میں تبدیل ہو گئے، جس کے بعد پولیس نے سخت اقدامات کیے۔

لاس اینجلس کاؤنٹی کے ڈسٹرکٹ اٹارنی نیتھن ہوچمین نے کہا ہے کہ مزید گرفتاریاں متوقع ہیں۔ حکام سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز اور نگرانی کیمروں کی فوٹیج کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ ان افراد کی شناخت کی جا سکے جو مظاہروں کے دوران تخریب کاری، تشدد یا کسی اور غیرقانونی سرگرمی میں ملوث پائے گئے۔ ہوچمین نے کہا، “قانون سے کوئی بالاتر نہیں۔”

دوسری جانب، لاس اینجلس کی میئر کیرن باس نے کیلیفورنیا کے 30 سے زائد چھوٹے شہروں کے میئرز کے ہمراہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں وفاقی امیگریشن چھاپوں کی سخت مذمت کی۔ ان رہنماؤں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ یہ کارروائیاں فوراً بند کی جائیں کیونکہ یہ کمیونٹی میں خوف اور بے چینی پیدا کر رہی ہیں اور مقامی استحکام کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔

میئر باس نے کہا، “نیشنل گارڈز کی تعیناتی اور ان جارحانہ چھاپوں سے ہمارے شہروں کی اقدار کی نمائندگی نہیں ہوتی۔ ہمیں امیگریشن کے نفاذ کے لیے زیادہ انسان دوست اور متوازن طریقہ کار کی ضرورت ہے۔”

جبکہ کیلیفورنیا کے حکام کشیدگی کم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، ٹیکساس میں صورتحال بالکل مختلف ہے۔ ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ نے ایک سوشل میڈیا پیغام میں بتایا کہ ٹیکساس نیشنل گارڈ اور پبلک سیفٹی ڈیپارٹمنٹ (DPS) کے اہلکار ریو گرانڈ ویلی میں بارڈر پٹرول ایجنٹس کے ساتھ مل کر انسانی اسمگلروں اور غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ایبٹ نے اپنے بیان میں کہا، “ہم اپنے ریاست اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔”

کیلیفورنیا اور ٹیکساس کے درمیان یہ متضاد پالیسیاں ملک میں امیگریشن کے معاملے پر بڑھتے ہوئے سیاسی اختلافات کی عکاس ہیں۔ جب تک متحدہ قومی پالیسی مرتب نہیں ہوتی، تب تک مظاہرے، قانون نافذ کرنے والے ادارے، اور عوامی ردعمل ملک کے سیاسی بیانیے کو متاثر کرتے رہیں گے۔


Click to listen highlighted text!