
تہران نے آج اعلان کیا ہے کہ اگر اسرائیل ایران کے خلاف اپنی فوجی کارروائیاں بند کر دے، تو ایران بھی اسرائیل پر اپنے حملے روک دے گا۔ ایران نے ان حملوں کو اپنی “خود دفاعی کارروائی” قرار دیا ہے۔ ہفتے کی رات اور آج صبح کیے گئے مہلک میزائل حملوں میں کم از کم 10 افراد جاں بحق ہوئے ہیں جن میں بچے بھی شامل ہیں، جب کہ تقریباً 200 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ تہران ہمسایہ ممالک میں جنگ کو پھیلانا نہیں چاہتا، البتہ اگر مجبور کیا گیا تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
دوسری جانب اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کی فوجی کارروائیوں کا مقصد ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنا اور اس کی میزائل صلاحیتوں کو ختم کرنا ہے، اور یہ کارروائیاں جاری رہیں گی۔
عراقچی نے اسرائیل کی جانب سے ایران کے ساؤتھ پارس گیس فیلڈ پر کیے گئے حملے کو “کھلی جارحیت” قرار دیا اور الزام عائد کیا کہ اسرائیل جان بوجھ کر جنگ کے دائرہ کو وسیع کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانا اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی “سرخ لکیر” کو عبور کرنا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اسرائیل کا مقصد ایران اور امریکہ کے درمیان جاری جوہری مذاکرات کو سبوتاژ کرنا ہے۔ تہران مذاکرات کے چھٹے دور میں ایک نیا اہم تجویز پیش کرنے والا تھا، لیکن بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث وہ مذاکرات منسوخ کر دیے گئے۔
عراقچی نے الزام عائد کیا کہ اسرائیل دانستہ طور پر سفارت کاری کو نقصان پہنچا رہا ہے اور جوہری مسئلے کے پرامن حل کی کوششوں کو پٹری سے اتارنے کی کوشش کر رہا ہے۔
جوہری تنصیبات کو کبھی نشانہ نہیں بنانا چاہیے، آئی اے ای اے چیف
جوہری توانائی کے عالمی ادارے (آئی اے ای اے) نے ایرانی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ملک پر اسرائیل کے حملوں سے نطنز میں واقع یورینیم کی افزودگی کے مرکز کو نقصان پہنچا ہے لیکن اس سے تابکاری کا اخراج نہیں ہوا جبکہ اصفہان اور فردو کے جوہری مراکز حملوں سے محفوظ رہے ہیں۔
‘آئی اے ای اے’ کے ڈائریکٹر جنرل رافائل مینوئل گروسی نے کہا ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیل کے حملے تشویشناک ہیں۔ کسی بھی طرح کے حالات میں ایسی جگہوں کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے کیونکہ اس سے انسانی جانوں اور ماحول کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ایسے حملوں سے جوہری تحفظ اور سلامتی سمیت علاقائی امن پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
نہوں نے کہا ہے کہ ادارہ ایران کے حکام کے ساتھ رابطے میں ہے اور ان حملوں سے جوہری تحفظ و سلامتی پر مرتب ہونے والے اثرات کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا ہے۔
کشیدگی سے گریز کا مطالبہ
ادارے نے جوہری تنصیبات پر حملوں سے متعلق اپنی جنرل کانفرنس کی متعدد قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پرامن مقاصد کے لیے قائم کردہ جوہری تنصیبات پر حملے یا حملوں کی دھمکی دینا اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون اور ادارے کے میثاق کی خلاف ورزی ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ جوہری تنصیبات پر حملوں کے نتیجے میں ان سے تابکاری کا اخراج ہو سکتا ہے جس کے اثرات متاثرہ ملک کی سرحدوں تک محدود نہیں رہتے۔
رافائل گروسی نے تمام رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل سے کام لیں اور مزید کشیدگی سے گریز کریں۔ عسکری کارروائیوں میں جوہری تنصیبات کے تحفظ و سلامتی کو لاحق ہونے والے خطرے کے ایران سمیت پورے خطے کے لوگوں پر سنگین اثرات ہوں گے۔
جوہری تحفظ یقینی بنانے کی کوششیں
گزشتہ روز ‘آئی اے ای اے’ کے بورڈ آف گورنرز نے جوہری تنصیبات کی حفاظت کے حوالے سے ایران کی ذمہ داریوں کے بارے میں ایک اہم قرارداد منظور کی تھی جس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ بورڈ ایران کے جوہری پروگرام سے لاحق مسائل کے سفارتی حل کی حمایت کرتا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل نے کہا ہے کہ ‘آئی اے ای اے’ ایران کی صورتحال کا بغور جائزہ لے رہا ہے اور جوہری تحفظ کے حوالے سے تکنیکی مدد دینے کے لیے تیار ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں وہ خود تمام متعلقہ فریقین کے ساتھ رابطوں اور ایران کی جوہری تنصیبات کا تحفظ اور اس کی جانب سے جوہری ٹیکنالوجی کے پرامن استعمال کو یقینی بنانے کے ضمن میں ہرممکن اقدامات کے لیے تیار ہیں۔ ان میں جوہری سلامتی و تحفظ کے بارے میں ادارے کے ماہرین کی تعیناتی بھی شامل ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اس کی جوہری تنصیبات پوری طرح محفوظ ہیں اور صرف پرامن مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ وہ جوہری تحفظ و سلامتی اور عدم پھیلاؤ کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے جلد از جلد ایران کا دورہ کرنا چاہتے ہیں اور اس معاملے پر ایران اور اسرائیل میں اپنے معائنہ کاروں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ادارے کے عملے کا تحفظ بہت اہم ہے اور انہیں نقصان سے بچانے کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھائے جائیں گے۔