
دوحہ، قطر:
قطر کل (پیر) ایک ہنگامی عرب-اسلامی سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گا، جو خطے کی تازہ صورتحال کے تناظر میں بلایا گیا ہے۔ اس اجلاس سے قبل عرب اور اسلامی وزرائے خارجہ کا غیرمعمولی اجلاس ہوا، جس میں اسرائیل کی حالیہ جارحیت پر ایک مسودۂ اعلامیہ تیار کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ یہ اجلاس اس وقت ہورہا ہے جب قطر اسرائیل کے ایک “بزدلانہ حملے” کا نشانہ بنا، جس میں حماس رہنماؤں کے رہائشی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ وزرائے خارجہ نے اس کارروائی کو بین الاقوامی قانون، انسانی اصولوں اور سفارتی روایات کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ: “یہ حملہ صرف ایک مقام پر نہیں بلکہ خود سفارت کاری اور ثالثی کے اصول پر حملہ ہے۔”
اعلامیے میں زور دیا گیا کہ اسرائیل نے قطر کی اس وقت بمباری کی جب دوحہ میں سرکاری اور عوامی مذاکرات جاری تھے جن کا مقصد غزہ میں جنگ بندی تھا۔ “اسرائیل نے ثالثی کی کوششوں کو سراہنے کے بجائے مذاکراتی ٹیم کے رہائشی ہیڈکوارٹر کو نشانہ بنایا، جو امن کی راہوں کو مکمل طور پر سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔”
مزید کہا گیا کہ: “یہ جارحیت نہ صرف جنگ بندی کے عمل کو ناکام بناتی ہے بلکہ اسرائیل کی امن مخالف سوچ کو بھی عیاں کرتی ہے۔ اسرائیل کو اس بات کا حوصلہ عالمی برادری کی خاموشی اور عدم احتساب نے دیا ہے۔”
قطری حکام نے واضح کیا کہ فلسطینی عوام پر جاری نسل کشی کی پالیسی انہیں ان کی سرزمین سے نکالنے کی کوشش ہے، لیکن یہ مقاصد کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ اجلاس میں اس عزم کا اعادہ کیا جائے گا کہ قطر مصر اور امریکہ کے ساتھ مل کر جنگ بندی کی کوششیں جاری رکھے گا۔
بیان کے اختتام پر کہا گیا کہ سلامتی کونسل کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کی مذمت اور قطر سے اظہارِ یکجہتی قابلِ تحسین ہے۔
