Last Updated on December 31, 2025 10:53 pm by INDIAN AWAAZ

ڈھاکہ سے ذاکر حسین
بدھ کے روز بنگلہ دیش نے تاریخ کا ایک غیر معمولی منظر دیکھا، جب ملک بھر سے لاکھوں افراد ڈھاکہ پہنچے اور سابق وزیرِ اعظم اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی چیئرپرسن بیگم خالدہ ضیا کو اشکبار آنکھوں سے آخری الوداع کہا۔ جمہوری جدوجہد کی ایک قد آور رہنما، تین بار وزیرِ اعظم رہنے والی خالدہ ضیا کو مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ اپنے مرحوم شوہر، شہید صدر ضیاء الرحمٰن (بیر اُتم) کے پہلو میں شیرِ بنگلہ نگر کے ضیاء اُدیان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

تدفین کا عمل شام تقریباً 4:30 سے 4:40 بجے کے درمیان مکمل ہوا، جب ان کے جسدِ خاکی کو اہلِ خانہ، جن میں بڑے صاحبزادے اور بی این پی کے قائم مقام چیئرمین طارق رحمان بھی شامل تھے، نے قبر میں اتارا۔ تدفین کے بعد بنگلہ دیش آرمی، نیوی اور ایئر فورس کے چاق و چوبند دستے نے بگل پر لاسٹ پوسٹ کی دھن کے ساتھ تین فائر کر کے سرکاری سلامی پیش کی۔ صدر محمد شہاب الدین اور چیف ایڈوائزر محمد یونس کی جانب سے قبر پر پھول چڑھائے گئے، جس کے بعد طارق رحمان اور تینوں افواج کے سربراہان نے خراجِ عقیدت پیش کیا۔ بعد ازاں مرحومہ کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لیے خصوصی دعائیں کی گئیں۔

اس سے قبل دن میں تین بجے، قومی پارلیمنٹ کے قریب مانک میا ایونیو پر خالدہ ضیا کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی، جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ نمازِ جنازہ بیت المکرم نیشنل مسجد کے خطیب مفتی محمد عبد المالک نے پڑھائی، جبکہ بی این پی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے رکن نذرالاسلام خان نے سابق وزیرِ اعظم کی مختصر سوانح عمری پیش کی۔

نمازِ جنازہ میں چیف ایڈوائزر محمد یونس، چیف جسٹس زبیر رحمان چوہدری، طارق رحمان، عبوری حکومت کے سینئر مشیران، بی این پی کے سیکریٹری جنرل مرزا فخرالاسلام عالمگیر، اسٹینڈنگ کمیٹی کے ارکان، مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما، اعلیٰ سول و فوجی افسران اور غیر ملکی معززین نے شرکت کی۔ کئی سوگوار اس موقع پر آبدیدہ ہو گئے اور ایک ایسی رہنما کی مغفرت کے لیے دعا کی، جنہیں وہ ثابت قدم اور ناقابلِ سمجھوتہ شخصیت قرار دیتے تھے۔

منگل کی رات سے ہی مانک میا ایونیو کی طرف آنے والی سڑکیں لوگوں سے بھری رہیں۔ ملک کے “ہر کونے کھدرے” سے لوگ بسوں، ٹرینوں، لانچوں اور میٹرو ریل کے ذریعے ڈھاکہ پہنچے۔ قومی پارلیمنٹ کے اطراف کا علاقہ انسانوں کے سمندر میں تبدیل ہو گیا، جہاں ہر طرف غم اور آہوں کا منظر تھا۔

32 ممالک کے سفارت کاروں نے نمازِ جنازہ میں شرکت کی، جن میں امریکہ کی قائم مقام سفیر میگن بولڈن، برطانیہ کی ہائی کمشنر سارہ کوک، چین کے سفیر یاو وین، یورپی یونین کے سفیر مائیکل ملر، روس کی قائم مقام سفیر ایکاترینا سیمینووا، جاپان کے سفیر سائیڈا شین ایچی، کینیڈا کے ہائی کمشنر اجیت سنگھ، آسٹریلیا کی ہائی کمشنر سوسن رائل اور سوئٹزرلینڈ کے سفیر ریٹو زیگفریڈ رینگللی شامل تھے۔ نیدرلینڈز، لیبیا، فلپائن، سنگاپور، فلسطین، جنوبی کوریا، میانمار، اٹلی، سویڈن، اسپین، انڈونیشیا، ناروے، برازیل، مراکش، ایران، الجزائر، برونائی، تھائی لینڈ، قطر، ڈنمارک اور ملائیشیا کے نمائندے بھی موجود تھے۔ بائمسٹیک کے سیکریٹری جنرل اندرا مانی پانڈے اور ورلڈ فوڈ پروگرام کی قائم مقام ملکی نمائندہ سیمون لاسن پارچمنٹ نے بھی شرکت کی۔

بھارت کی نمائندگی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے کی، جو سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ (خالدہ ضیا کی دیرینہ سیاسی حریف) کی معزولی کے بعد بھارت کی جانب سے سب سے اعلیٰ سطحی دورہ تھا۔ پاکستان سے بھی اعلیٰ حکام، جن میں قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق شامل تھے، جنازے میں شریک ہوئے۔

ٹیلی وژن خطاب میں چیف ایڈوائزر محمد یونس نے تین روزہ سرکاری سوگ اور ایک روزہ عام تعطیل کا اعلان کیا۔ بنگلہ دیش کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم خالدہ ضیا منگل کی صبح چھ بجے 80 برس کی عمر میں طویل علالت کے بعد ڈھاکہ کے ایک اسپتال میں انتقال کر گئیں۔

ایک بیان میں طارق رحمان نے کہا کہ ملک “ایک ایسی رہنما کے بچھڑنے کا غم منا رہا ہے، جنہوں نے جمہوری امنگوں کی سمت متعین کی”۔ انہوں نے کہا کہ ان کی والدہ نے “بار بار گرفتاریوں، علاج سے محرومی اور مسلسل ظلم و ستم” کا سامنا کیا، مگر ان کی “استقامت ناقابلِ شکست رہی”۔

خالدہ ضیا کا انتقال بنگلہ دیش کے لیے ایک نازک سیاسی دور میں ہوا ہے، جہاں حالیہ ہفتوں میں کشیدگی اور احتجاج دیکھنے میں آئے ہیں۔ تاہم بدھ کے روز سیاسی اختلافات ماند پڑ گئے اور پوری قوم ایک ایسی رہنما کے غم میں متحد نظر آئی، جنہیں بنگلہ دیش کے پُرآشوب جمہوری سفر کی مرکزی شخصیت سمجھا جاتا ہے۔