AMN FEATURE DESK

دیئیلا کوئی عام کمپیوٹر پروگرام نہیں ہے۔ دیئیلا کو رواں برس جنوری سے شہریوں کی رہنمائی کے لیے سرکاری خدمات کے آن لائن نظام میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اب اسے باقاعدہ وزیر کا درجہ دے دیا گیا ہے اور اس کا سب سے بڑا فریضہ ہوگا—تمام عوامی ٹینڈرز کو شفاف بنانا اور بدعنوانی پر مکمل طور پر قابو پانا۔ ۔ اس کا مشن واضح ہے:

وزیراعظم کا وژن

ایڈی راما نے اعلان کیا: “دیئیلا اب ہر اس ٹینڈر کی نگرانی کرے گی جس میں عوامی پیسہ شامل ہوگا۔ یہاں کوئی رشوت، کوئی خفیہ ڈیل، اور کوئی سیاسی دباؤ ممکن نہیں ہوگا۔ یہ ہماری نئی دنیا کا آغاز ہے۔”

سائنس فکشن سے حقیقت تک

یہ قدم کسی سائنسی کہانی کا حصہ لگتا ہے، لیکن البانیہ نے اسے حقیقت بنا دیا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ پہلا موقع ہے جب مصنوعی ذہانت صرف ایک مشاورتی آلہ نہیں بلکہ حکومت کا باقاعدہ فیصلہ ساز ادارہ بنی ہے۔ اگر یہ تجربہ کامیاب ہوتا ہے تو کل کو وزرائے خزانہ، وزرائے تعلیم اور یہاں تک کہ وزرائے اعظم بھی ڈیجیٹل شکل میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

عوام اور دنیا کی نظریں

عوام میں جوش و ولولہ پایا جا رہا ہے۔ نوجوان اسے کرپشن کے اندھیروں میں امید کا چراغ سمجھتے ہیں، جبکہ ناقدین خبردار کرتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کو انسانی حساسیت کے بغیر چلانا خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ پھر بھی، سب اس بات پر متفق ہیں کہ یہ ایک تاریخی تجربہ ہے، جس پر دنیا کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔

دیئیلا: امید کا سورج یا ایک نیا سوال؟

فی الحال، دیئیلا البانیہ کے لیے صرف ایک وزیر نہیں بلکہ نئی دنیا کی علامت ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب سیاست، ٹیکنالوجی اور عوامی اعتماد ایک ہی دائرے میں سمٹ گئے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ مصنوعی وزیر واقعی بدعنوانی کا سورج طلوع کرے گی یا ایک نیا سیاسی و سماجی سوال چھوڑ جائے گی؟

اس پس منظر میں، دیئیلا کی شمولیت نے لوگوں کو ایک طرف مسحور کر دیا ہے اور دوسری جانب ہنسی کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ وزیراعظم ایڈی راما کا کہنا ہے کہ یہ مصنوعی ذہانت پر مبنی وزیر عوامی فنڈز کو کرپشن سے بچائے گا، مگر شکوک و شبہات رکھنے والے سوال اٹھا رہے ہیں کہ انسانی نگرانی کا کیا ہوگا اور خود نظام کو ہی ہیر پھیر سے بچانے کے لیے کون سی حفاظتی تدابیر موجود ہیں۔

ایک فیس بک صارف نے طنزیہ لکھا: “البانیہ میں تو دیئیلا بھی کرپٹ ہو جائے گی۔”
دوسرے نے کہا: “چوری تو جاری رہے گی، بس اب الزام دیئیلا پر ڈال دیا جائے گا۔”

ای۔گورننس سے کابینہ تک

رواں سال کے آغاز میں، دیئیلا کو البانیہ کے ای۔گورنمنٹ پلیٹ فارم کے حصے کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا۔ اس وقت وہ صرف ایک ڈیجیٹل معاون کے طور پر شہریوں کو سرکاری دستاویزات حاصل کرنے میں مدد فراہم کرتی تھی۔ روایتی البانوی لباس میں مجسم اس ورچوئل وزیر نے الیکٹرانک کاغذی کارروائی کو تیز اور تاخیر کو کم کر دیا تھا۔
لیکن اب، کابینہ کے رکن کے طور پر اس کا تقرر ایک بے مثال قدم ہے—ایک ایسا تجربہ جس میں سیاسی تھیٹر اور ٹیکنالوجی کی امنگ کو یکجا کیا گیا ہے۔

نجی مفادات اور ٹونی بلیئر کا کردار

اس منصوبے نے اپنے ماخذ کے حوالے سے تنازع بھی پیدا کر دیا ہے۔ اگرچہ راما نے دیئیلا کو ایک حکومتی اختراع قرار دیا ہے، لیکن مقامی میڈیا کے مطابق یہ اقدام ٹونی بلیئر انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل چینج سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ اس ادارے نے عوامی سطح پر “دیئیلا 2.0” اور آنے والے “3.0” ورژن کو اپنے ڈیجیٹل گورننس پورٹ فولیو کا حصہ قرار دیا ہے، جس کی مالی معاونت جزوی طور پر بین الاقوامی عطیہ دہندگان کر رہے ہیں۔