ذہنی امراض سمیت غیر متعدی بیماریوں پر تاریخی UN اعلامیہ کی منظوری

UN NEWS

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں غیر متعدی بیماریوں اور ذہنی صحت کے مسائل سے بیک وقت نمٹنے کے لیے ایک تاریخی عالمی اعلامیہ کی منظوری دے دی گئی ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، یہ معاہدہ اس اعتبار سے غیر معمولی ہے کہ پہلی مرتبہ حکومتوں نے امراض قلب، سرطان اور زیابیطس جیسی دائمی بیماریوں کے ساتھ ذہنی صحت کے مسائل کو بھی حل کرنے کا عہد کیا ہے اور تسلیم کیا ہے کہ یہ امراض دنیا بھر میں انسانی جانوں اور معیشتوں پر بڑھتا ہوا بوجھ ڈال رہے ہیں۔

اعلامیہ میں رکن ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اپنی قومی طبی پالیسیوں کو مضبوط بنائیں، بنیادی صحت کی خدمات تک رسائی میں اضافہ کریں اور وعدوں کو عملی شکل دینے کے لیے پائیدار مالی وسائل کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔

اعلامیہ کے اہداف

غیر متعدی بیماریاں دنیا بھر میں اموات کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں جبکہ ذہنی صحت کے مسائل ایک ارب سے زیادہ لوگوں کو متاثر کر رہے ہیں۔

اعلامیہ میں 2030 تک حاصل کیے جانے والے قابل پیمائش اہداف مقرر کیے گئے ہیں، جن میں تمباکو نوشی میں کمی لانا، بلند فشار خون (ہائی بلڈ پریشر) پر بہتر کنٹرول اور لاکھوں افراد کے لیے ذہنی صحت کی دیکھ بھال تک رسائی میں توسیع شامل ہیں۔

‘ڈبلیو ایچ او’ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا ہے کہ یہ وعدے عالمگیر صحت عامہ کو بہتر بنانے اور لوگوں کے معیار زندگی کو بدلنے کا ایسا موقع ہیں جو کئی نسلوں کے بعد آتا ہے۔

اس حوالے سے پیش رفت کا جائزہ اقوام متحدہ کی جانب سے باقاعدہ رپورٹنگ کے ذریعے لیا جائے گا اور حکومتوں سے توقع کی جائے گی کہ وہ آنے والے برسوں میں ٹھوس اور قابل عمل نتائج پیش کریں۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بتایا ہے کہ دنیا بھر میں ایک ارب سے زیادہ لوگ ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار ہیں جبکہ ذہنی تناؤ اور ڈپریشن سے افراد، خاندانوں اور معیشتوں پر بھاری بوجھ پڑ رہا ہے اور بیشتر ممالک ان مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

اقوام متحدہ کے طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ذہنی صحت کے مسائل ہر معاشرے اور ہر عمر کے افراد میں عام ہیں اور یہ طویل مدتی معذوری کا دوسرا بڑا سبب بھی ہوتے ہیں۔ ان کے باعث نہ صرف خاندانوں اور حکومتوں کے لیے علاج کے اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے بلکہ عالمی معیشت کو ہر سال پیداوار میں کمی کی صورت میں تقریباً ایک ٹریلین ڈالر کا نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔

‘ڈبلیو ایچ او’ نے یہ باتیں دو نئی رپورٹوں میں بتائی ہیں جن میں ‘آج دنیا کی ذہنی صحت’ اور ‘ذہنی صحت کا منظرنامہ 2024’ شامل ہیں۔

ان رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ 2020 کے بعد ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار افراد کی تعداد میں قدرے کمی آئی ہے لیکن دنیا اب بھی اس بحران کی شدت سے نمٹنے میں بہت پیچھے ہے۔ یہ رپورٹیں رواں ماہ کے آخر میں غیر متعدی بیماریوں اور ذہنی صحت کے موضوع پر اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں بات چیت کے لیے رہنمائی فراہم کریں گی۔

نوجوانوں میں اموات کا بڑا سبب

خواتین ذہنی صحت کے مسائل سے غیر متناسب طور پر متاثر ہوتی ہیں جبکہ اضطراب اور ڈپریشن ہر دو جنس میں سب سے زیادہ عام ذہنی امراض ہیں۔

2021 میں تقریباً 727,000 افراد نے خودکشی کے ذریعے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا اور یہ نوجوانوں میں اموات کی ایک بڑی وجہ ہے۔ موجودہ رجحانات کے مطابق، پائیدار ترقی کے اہداف کے تناظر میں دنیا 2030 تک خودکشی کی شرح کو ایک تہائی تک کم کرنے کے ہدف کو حاصل نہیں کر سکے گی اور ایسی 12 فیصد اموات کی روک تھام ہی ممکن ہو پائے گی۔

اس وقت ہر حکومت اپنے صحت کے بجٹ کا اوسطاً دو فیصد ہی ذہنی صحت پر خرچ کرتی ہے اور  2017 کے بعد اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ جہاں زیادہ آمدنی والے ممالک ذہنی صحت پر فی فرد 65 ڈالر تک خرچ کرتے ہیں، وہیں کم آمدنی والے ممالک میں یہ شرح چار سینٹ ہے۔

دنیا کے کئی خطوں میں ذہنی صحت کے عملے کی تعداد خطرناک حد تک کم ہے۔ دنیا بھر میں ہر ایک لاکھ افراد کے لیے ذہنی صحت کے صرف 13 طبی کارکن دستیاب ہیں۔

10 فیصد سے بھی کم ممالک نے ذہنی صحت سے متاثرہ لوگوں کو مقامی بنیاد پر نگہداشت فراہم کرنے کے لیے مکمل پیش رفت کی ہے جبکہ زیادہ تر ممالک اب بھی بیشتر مریض ذہنی امراض کے ہسپتالوں پر انحصار کرتے ہیں۔ ان ہسپتالوں میں تقریباً نصف مریضوں کو ذبردستی داخل کرایا جاتا ہے جبکہ 20 فیصد سے زیادہ مریض ایک سال سے زیادہ عرصے تک ہسپتال میں زیر علاج رہتے ہیں۔

یوکرین میں ذہنی صحت کا ایک طبی مرکز۔

© WHO/Christopher Black

مثبت پیش رفت

ان مسائل کے باوجود قدرے مثبت پیش رفت بھی دیکھنے کو ملی ہے۔ اب بہت سے ممالک ذہنی صحت کی خدمات اور نفسیاتی مدد کو بنیادی طبی دیکھ بھال کا حصہ بنا رہے اور اسے سکولوں اور مقامی سطح پر ابتدائی طبی امداد کے پروگراموں میں بھی شامل کیا جا رہا ہے۔

80 فیصد سے زیادہ ممالک اب ہنگامی حالات میں ذہنی صحت کی خدمات اور نفسیاتی سماجی معاونت بھی فراہم کرتے ہیں جبکہ 2020 میں ان کی تعداد 40 فیصد سے بھی کم تھی۔ فاصلاتی طبی خدمات بھی اب زیادہ وسیع پیمانے پر دستیاب ہو رہی ہیں تاہم ان تک سبھی کو یکساں رسائی حاصل نہیں ہے۔

‘ڈبلیو ایچ او’ کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا ہے کہ ذہنی صحت کی خدمات کو بہتر بنانا صحت عامہ کو درپیش اہم ترین مسئلہ ہے۔ ذہنی صحت پر سرمایہ کاری کا مطلب انسانوں، معاشروں اور معیشتوں پر سرمایہ کاری ہے جسے نظرانداز کرنے کا کوئی بھی ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ عالمی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے میں فوری اقدامات کرتے ہوئے ذہنی صحت کی دیکھ بھال کو ہر فرد کے بنیادی حق کے طور پر یقینی بنائیں۔

ذہنی صحت: بنیادی انسانی حق

‘ڈبلیو ایچ او’ نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ ذہنی صحت پر سرمایہ کاری بڑھائیں اور اس حوالے سے ضروری اصلاحات لائیں کیونکہ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے پیش رفت کی موجودہ رفتار کے ہوتے ہوئے متعلقہ عالمی اہداف کو حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ ادارے نے اس حوالے سے درج ذیل اقدامات کو ترجیح بنانے کے لیے کہا ہے:

  • ذہنی صحت کی خدمات کے لیے منصفانہ مالی انتظامات
  • مریضوں کے لیے مضبوط قانونی تحفظ اور حقوق پر مبنی قوانین
  • ذہنی صحت سے متعلق طبی عملے پر سرمایہ کاری میں اضافہ
  • ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار افراد کو معاشرے میں مقامی سطح پر دیکھ بھال فراہم کرنے کے لیے تیزتر اقدامات

‘ڈبلیو ایچ او’ نے کہا ہے کہ ذہنی صحت کو بنیادی انسانی حق سمجھا جانا چاہیے۔ اس معاملے میں فوری اقدامات کے بغیر لاکھوں لوگ مدد سے محروم رہیں گے اور معاشروں بھاری سماجی اور معاشی اخراجات کا سامنا کرنا پڑے گا۔