Last Updated on November 13, 2025 7:52 pm by INDIAN AWAAZ
مادری زبان کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری
غالب اکیڈمی، نئی دہلی میں عالمی یومِ اردو کی پروقار تقریب — مقررین کا اظہارِ خیال

نئی دہلی:
اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کے زیر اہتمام 9 نومبر کو غالب اکیڈمی، بستی حضرت نظام الدین، نئی دہلی میں عالمی یومِ اردو کی ایک شاندار تقریب منعقد ہوئی۔ اس موقع پر ممتاز ادیبوں، صحافیوں، اساتذہ اور اہلِ علم نے شرکت کی۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ اردو کسی ایک مذہب یا فرقے کی زبان نہیں بلکہ یہ برصغیر کے تمام مذاہب کے ماننے والوں کی مشترکہ تہذیبی اور ثقافتی زبان ہے۔ انہوں نے کہا کہ اہلِ اردو کا یہ فرض ہے کہ وہ اس زبان کے فروغ اور تحفظ کے لیے عملی کوششیں کریں۔
اس موقع پر نامور صحافی عالم نقوی کی حیات و خدمات پر مبنی ایک خصوصی مجلہ بھی جاری کیا گیا۔ قومی سمپوزیم کا عنوان ’’فروغِ اردو کی عملی تدبیریں‘‘ تھا، جس کی صدارت ممتاز اقبالیات داں پروفیسر عبدالحق نے کی۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ اردو زبان ہماری قومی اور مذہبی میراث کا عظیم سرمایہ ہے۔ ہمیں نہ صرف اس زبان کی حفاظت کرنی ہے بلکہ اسے آنے والی نسلوں تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی پوری کرنی ہے۔
اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کے سربراہ ڈاکٹر سید احمد خاں نے اپنے استقبالیہ خطاب میں کہا کہ آج اردو تعلیم زوال پذیر ہے۔ اردو گھرانوں سے اردو ختم ہوتی جا رہی ہے اور اردو اخبارات کے قارئین کی تعداد گھٹ رہی ہے، جو باعثِ تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو کی ترویج کا انحصار اردو میڈیم اسکولوں کی تعداد پر ہے۔ جہاں اردو اسکول زیادہ ہیں، وہاں اردو زندہ ہے، اور جہاں یہ بند ہو رہے ہیں، وہاں اس کا وجود خطرے میں ہے۔ دہلی میں اردو اسکولوں کا بند ہونا اور تنظیمی سرگرمیوں میں کمی تشویش ناک ہے۔
پروفیسر محسن عثمانی نے یومِ اقبال کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے طلبہ کو مشورہ دیا کہ وہ اقبال کے ساتھ ساتھ اردو کے کلاسیکی ادبا و شعرا کا مطالعہ کریں تاکہ ان کے علم میں وسعت پیدا ہو۔ پروفیسر اخترالواسع نے کہا کہ اردو کا تعلق پیٹ سے نہیں، دل سے ہونا چاہیے۔ دوسروں کو الزام دینے کے بجائے ہمیں اپنے رویے کا جائزہ لینا چاہیے۔
سینئر صحافی معصوم مرادآبادی نے کہا کہ اردو کی زبوں حالی کے لیے صرف دوسروں کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ہماری بے حسی نے خود ہماری زبان کو ہمارے بچوں کے لیے اجنبی بنا دیا ہے۔ اگر ہم نے اردو کو گھروں میں جگہ نہ دی تو اس کی حالت بہتر نہیں ہو سکتی۔ پروگرام کے ناظم سہیل انجم نے کہا کہ یومِ اردو نہ صرف خوشی بلکہ احتساب کا دن بھی ہے۔ اگر ہم واقعی اردو سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں عملی طور پر اس کا ثبوت دینا ہوگا—اردو پڑھ کر، بچوں کو پڑھا کر، اور اردو اخبارات خرید کر۔
دیگر مقررین میں ڈاکٹر سید فاروق، مولانا محمد رحمانی، دوحہ سے آئے ڈاکٹر وصی الحق وصی، اور ممبئی کے یاسین مومن شامل تھے۔ تقریب میں اردو خدمات انجام دینے والی شخصیات کو شال، میمنٹو اور سرٹیفکیٹ سے نوازا گیا، جب کہ نمایاں کارکردگی دکھانے والے طلبہ کو حوصلہ افزائی ایوارڈ دیے گئے۔
آخر میں ایک متفقہ قرارداد منظور کی گئی، جس میں کہا گیا کہ ملک بالخصوص اترپردیش میں اردو تعلیم کی صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے، جہاں لاکھوں پرائمری اسکولوں میں ایک بھی اردو میڈیم اسکول نہیں ہے۔ اجلاس نے مطالبہ کیا کہ اترپردیش حکومت اردو اسکولوں پر عائد پابندی فوراً ختم کرے، اردو اکیڈمی کو فعال بنایا جائے، اور والدین اپنے بچوں کو مادری زبان میں تعلیم دلانے پر اصرار کریں۔ قرارداد میں کہا گیا کہ “اردو زبان سے محرومی دراصل اپنی تہذیب سے محرومی کے مترادف ہے۔ اردو کو زندہ رکھنا ہم سب کا مشترکہ فرض ہے۔”
