Last Updated on November 8, 2025 8:31 pm by INDIAN AWAAZ
ڈاکٹر ظفرالاسلام خان
سوڈان افریقہ میں واقع ایک عرب مسلم ملک ہے جو عرب لیگ اور او۔آئی۔سی کا ممبر ہے۔ اس کا رقبہ: 1886,668 km2 ہے یعنی ہندوستان کا تقریبا آدھا لیکن اس کی آبادی بہت کم ہے یعنی 51 ملین جن میں ۷۰ فیصد عرب ہیں اور ۹۰ فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں ۔ سنہ ۲۰۲۳ میں اس کی سالانہ مقامی پیداوار GDP 117 بلین ڈالر تھی۔
مصر کے ساتھ سوڈان کا ایک بڑا حصہ صدیوں سے سلطنت عثمانیہ میں شامل تھا۔ جب سنہ ۱۸۸۲ میں برطانیہ نے مصر پر قبضہ کیا تو سوڈان بھی اس کے قبضے میں آیا۔ ۱۹۱۶ سے مصر برطانیہ کا زیر حمایت خطہ قرار پایا یعنی مصر پر برطانیہ کا قبضہ ڈائرکٹ نہیں رہا جبکہ سوڈان پر برطانیہ نے ڈائرکٹ قبضہ بر قرار رکھا جو یکم جنوری ۱۹۵۶ تک چلا جب برطانیہ نے سوڈان کو مصر سے الگ کرکے اسے ایک آزاد ملک کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔ سنہ ۲۰۱۱ میں سوڈان کی ایک بار پھر تقسیم ہوئی اور ’’جنوبی سوڈان‘‘ نامی ملک سوڈان سے کاٹ کر بنایا گیا جس کی راجدھانی جوبا ہے اور آبادی تقریبا ۱۵ ملین ہے۔ اس تقسیم سے پہلے رقبے کے لحاظ سے سوڈان افریقہ کا سب سے بڑا ملک تھا۔
فوجی انقلابات کا سلسلہ
آزادی کے بعد شروع کے سالوں میں سوڈان میں انتخابات کے ذریعے حکومتیں بنیں لیکن عالم عرب میں بعض دوسرے ممالک کی دیکھا دیکھی جلد ہی سوڈانی فوج سیاست میں کود پڑی۔ سنہ ۱۹۷۱ میں جنرل جعفرنمیری نے صدر اسماعیل ازہر ی کی حکومت کا تختہ پلٹ کر ۱۹۸۵ تک حکومت کی۔ نمیری نے اپنے مخالف اسلام پسند انصار اور کمیونسٹوں کا ہزاروں کی تعداد میں صفایا کیا۔ ۱۹۸۵ میں جنرل سوار الذہب نے نمیری کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا۔ اس کے چار سال بعد جنرل عمر حسن البشیر نے جنرل سوار الذہب کی گورنمنٹ کا تختہ پلٹ دیا او اگلے تیس سال تک لگاتار حکومت کی۔
جنرل عمر حسن البشیرکے زمانے میں شمال مغربی صوبہ دار فور میں بہت مظالم ہوئے جس کی وجہ سے بین الاقوامی عدالت نے ان کو نسل کشی کا ملزم گردانا اور ان کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا۔ ۲۰۱۹ میں ایک اور فوجی انقلاب نے ان کی حکومت ختم کردی پھر اکتوبر ۲۰۲۱ میں فوجی سربراہ جنرل عبد الفتاح برہان حکومت کا تختہ پلٹ کر صدر بن گئے اور ریپڈ سپورٹ فورس (RSF) کے قائد جنرل محمد حمدان دگالو (حمیدتی) کو نائب صدر مقرر کیا ۔ جنرل برہان نے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا اور بہت سے سیاسی لوگوں کو جیل میں ڈالدیا۔
ریپڈ سپورٹ فورس
ریپڈ سپورٹ فورس (قوات الدعم السریع) ایک پرانی میلیشیا (غیر سرکاری مسلح تنظیم) کا نیا نام ہے ۔ یہ پہلے’’ جنجوید‘‘ کے نام سے جانی جاتی تھی جس کے معنی ہیں اونٹ پر سوار جنات! ۔ جنرل عمر حسن البشیر نے جنجوید کو سنہ ۲۰۰۰ میں دار فور میں برسوں سے جاری مقامی سورش کو ختم کے لئے بنایا تھا۔ جنجوید پر عوام کے بے تحاشا قتل، تشدد کا بیجا استعمال ، لوٹ مار اور منظم زنا کاری کا الزام لگایا گیا ہے۔ ان مظالم کی وجہ سے تقریبا ۲۵؍ لاکھ لوگ صوبہ دار فور چھوڑ کر بھاگ گئے اور ۳؍ لاکھ لوگ خانہ جنگی کے دوران قتل ہوئے۔ دار فور کی خانہ جنگی ۲۰۰۸ میں ختم ہوئی۔ اس جنگ میں جنجوید میلشیا سوڈانی فوج کی مددگار کے طور پر ابھری۔ دار فور میں جنگی جرائم کی وجہ سے سابق صدر بشیر کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ چلا اور ۲۰۰۹ اور ۲۰۱۰ میں ان کی گرفتاری کا بین الاقوامی وارنٹ جای ہوا۔ چونکہ مسائل حل نہیں ہوئے تھے اور دار فور کے عوام میں شدید بے چینی تھی ، اس لئے وہاں ۲۰۱۳ میں خانہ جنگی دوبارہ شروع ہوگئی۔
سنہ ۲۰۱۳ میں جنجوید ملیشیا کو سرکاری حیثیت دینے کے لئے اسے ’’ ریپڈ سپورٹ فورس‘‘کا نام دیا گیا اور اس کے ایک کمانڈر حمیدتی کو اس نئی سرکاری فورس کا کمانڈر بنا دیا گیا اور اسے’’ جنرل ‘‘کا درجہ دے دیا گیا ۔ جنرل عمر حسن البشیر کا خیال تھا کہ یہ نئی فورس باغیوں سے لڑنے کے علاوہ فوج پر کنٹرول رکھنے کے کام بھی آئے گی جیسے کہ بعض ملکوں میں فوج کے علاوہ ایک اور منظم مسلح گروپ ہوتا ہے ، مثلا سعودی عرب میں الحرس الوطنی اور ایران میں سپا ہ پاسداران انقلاب اسلامی۔ اس طرح کی الگ مسلح تنظیم کا مقصد باقاعدہ فوج کو قابو میں رکھنا اور اس کو انقلاب کرنے کے روکنا ہوتا ہے۔
سنہ ۲۰۲۱ میں صدر بننے کے بعد جنرل عبد الفتاح برہان نے کوشش کی کہ ریپڈ سپورٹ فورس کو فوج میں مندمج کر دیں لیکن یہ بات ریپڈ سپورٹ فورس کے قائدین کو پسند نہیں آئی ۔ وہ ایک الگ فورس کے طور پر باقی رہنے کو اپنے لئے زیادہ فائدہ مند سمجھتے تھے کیونکہ انھوں نے سونے کی اسمگلنگ اور دوسرے غیر قانونی دھندے شروع کردئے تھے جن سے اس کے قائدین ذاتی طور پر مستفید ہوتے تھے۔
اس کشمکش کے دوران ریپڈ سپورٹ فورس نے ۱۵؍ اپریل ۲۰۲۳ کو جنرل برہان کے صدارتی محل پر قبضہ کرنے کی ناکام کوشش کی ۔ اس کے بعد ملک میں مسلح خانہ جنگی شروع ہوگئی جس میں ایک طرف فوج اور دوسری طرف ریپڈ سپورٹ فورس تھی۔ سوڈانی فوج کے پاس تقریبا ۲؍ لاکھ فوجی ہیں جبکہ ریپڈ سپورٹ فورس کے پاس ایک لاکھ جنگجو ہیں۔ طرفین کا مقصد سوڈان پر مکمل قبضہ جمانا ہے۔ اس دوران باغیوں ( ریپڈ سپورٹ فورس)نے راجدھانی خرطوم کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا جس کی وجہ سے حکومتی اداروں نے خرطوم سے بھاگ کر ساحل سمندر پر واقع شہر پورٹ سوڈان میں پناہ لی اور وہ اب تک وہیں سے کام کررہے ہیں۔اس وقت سے مستقل خانہ جنگی جاری ہے جس کے دوران ہزاروں لوگ مارے گئے ہیں ، دسیوں لاکھ بے گھر ہوئے ہیں اور تقریبا ۲۵ ملین سوڈانی بھکمری کا شکار ہیں۔
بیرونی طاقتوں کی دخل اندازی
سوڈان میں خانہ جنگی بیرونی طاقتوں کے دخل اندازی اور تایید سے چل رہی ہے ورنہ کب کی دم توڑ چکی ہوتی۔ سوڈان کی فوجی حکومت کو اگرچہ وہاں کی قانونی حکومت سمجھا جاتا ہے لیکن بیرونی طاقتوں میں سوڈانی حکومت کے تئیں سرد مہری ہے کیونکہ متعدد ممالک اس کو نہ صرف اسلام پسند بلکہ الاخوان المسلمون اور حماس کی حلیف سمجھتی ہیں۔ دوسری طرف ریپڈ سپورٹ فورس کے قائد جنرل حمیدتی نے باہر کی طاقتوں ،بالخصوص متحدہ عرب امارات ،سے تعلقات بنا لئے اور ان سے سونے کے بدلے ہتھیار حاصل کرنا شروع کردیا۔ دارفور میں واقع سونے کی کانیں ریپڈ سپورٹ فورس کے قبضے میں ہیں۔ اس دولت کو استعمال کرکے آج حمیدتی دنیا کے بڑے مالدار لوگوں میں ہے اور اس کی دولت باہر ملکوں میں انوسٹ کی گئی ہے۔ ریپڈ سپورٹ فورس پچھلی جولائی سے نیالا Niala شہرسے ایک متبادل حکومت چلا رہی ہے جسے دنیا کی کوئی حکومت تسلیم نہیں کرتی ہے۔
کرایہ کے فوجی
ریپڈ سپورٹ فورس کو باہر کی مدد کے ساتھ بیرونی کرایہ کے فوجی (Mercenaries) بھی میسر ہیں جو موٹی موٹی تنخواہوں کے عوض دنیا کے کسی بھی حصے میں جاکر لڑنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ ان کی موٹی تنخواہیں باہر کی طاقتیں دے رہی ہیں۔ ریپڈ سپورٹ فورس کو فوجی امداد اور کرایہ کے فوجی لیبیا، سنٹرل افریقہ، صومالیہ اور چاڈ کے ذریعے مہیا کرائے چاتے ہیں جن کی سرحدیں سوڈان سے ملتی ۔ ریپڈ سپورٹ فورس کے ساتھ کولومبیا کے ہزاروں فوجی لڑ رہے ہیں۔ ریپڈ سپورٹ فورس کا لیڈر حمیدتی اسرائیل کا بڑا مداح ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ اسے اسرائیل کی بڑی ضرورت ہے اور عرب مالک کو اسرائیل کو تسلیم کرلینا چاہئے۔ ریپڈ سپورٹ فورس اسرائیل سے سیاسی تایید کے ساتھ ساتھ اسلحے بھی حاصل کر رہا ہے۔ اس نے ایک اسرائیلی سابق فوجی افسر آری بن ناشی کی کمپنی Dickens ڈکنس اینڈ میڈسن& Madson (Canada) Inc. سے ۶؍ ملین ڈالر کا معاہدہ ریپڈ سپورٹ فورس کی تصویردنیا میں بہتر کرنے کے لئے کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات ریپڈ سپورٹ فورس کو مستقل اسلحےفراہم کرتا ہے۔ بیرونی امداد کے بغیر ریپڈ سپورٹ فورس کی بغاوت اتنے دن نہیں چل سکتی تھی۔ روس اس جنگ میں طرفین کو اسلحے سپلائی کر رہا ہے برطانیہ بھی ریپڈ سپورٹ فورس کو اسلحے فراہم کرتا ہے جبکہ ترکی اور مصر سوڈانی فوج کی تایید کر رہے ہیں ۔
عرب حکومتوں کا موقف
مصر میں عرب بہاریہ کے دوران امریکہ نواز حسنی مبارک کی حکومت گرنے اور الاخوان المسلمون کے ۲۰۱۲ کے الیکشن میں جیتنے سے امریکہ، اسرائیل اور خلیج کے ملکوں میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی۔ ایک سال کے اندر ہی امریکہ اور اسرائیل کے رسوخ ، فوجی و انٹیلجنس طاقت اور خلیجی ممالک ،بالخصوص متحدہ عرب امارات ،کے پیسوں سے صدر مرسی کا تختہ الٹ دیا گیا اور پوری عرب دنیا میں الاخوان المسلمون اور ان کے حامیوں کے خلاف سیاسی اور فوجی حملہ شروع ہو گیا۔ غزہ میں حماس کو بے سہارا چھوڑنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ عرب حکومتیں حماس کو الاخوان المسلمون کی ہی ایک شاخ سمجھتی ہیں ۔ غزہ پر اسرائیلی حملے کی تقریبا تمام عرب ممالک نے خاموشی سے تایید کی اور اسرائیل سے کہا کہ حماس کو تباہ کئے بغیر جنگ نہ بند کرنا۔ یہ بات مشہور امریکی صحافی بوب وڈورڈ نے اپنی حالیہ کتاب War میں کہی ہے۔
متحدہ عرب امارات کی موجودہ خارجہ پالیسی کا بنیادی مقصد سیاسی اسلام کے خلاف لڑنا ہے ۔ متحدہ عرب امارات کا تجزیہ ہے کہ سوڈانی فوج اسلام پسند ہے جو امارات کے لئے سوہان روح ہے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت آگ سے کھیل رہی ہے۔ امارات کے پاس پیسہ بہت ہے لیکن آبادی اور رقبہ کے لحاظ سےوہ ہمارے ایک ضلع سے بھی کم ہے۔امارات میں رہنے والے ۹۰؍ فیصد لوگ غیر ملکی ہیں۔
اسلحہ کے بدلے سونا
سوڈان کے باغیوں کو اسلحہ سپلائی کرنے کے بدلے امارات کو سونا ملتا ہے جوسوڈان کی سونے کی کانوں سے نکلتا ہے جو ریپڈ سپورٹ فورس کے قبضے میں ہیں۔ سونا سوڈان کے اقتصاد کا بڑا حصہ ہے۔ ۲۰۲۱ میں سوڈان نے تین ہزار ملین ڈالر کا سونا برآمد کیا تھا۔ موجودہ خانہ جنگی سے پہلے بھی سنہ ۲۰۱۵ سے یمن میں جنگ کے لئے متحدہ عرب امارات ، سوڈان سے دسیوں ہزار کرایہ کے فوجی لاکر یمن کی خانہ جنگی میں استعمال کررہا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی نظریں سوڈان کی زراعت پر بھی ہیں۔ اگر اس کی مؤید حکومت وہاں قائم ہو جاتی ہے تو وہاں کی زراعت امارات کے لئے ایک بہت بڑی کمائی کا ذریعہ ہوگی۔ سوڈان کی زمین بہت زرخیز ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر اس کی زمینوں کو ٹھیک طرح سے استعمال کیا جائے تو وہ اکیلے پورے افریقہ کو کھلا سکتا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی انٹرنیشنل ہولڈنگ کمپنی بالفعل سوڈان میں ۵۰؍ ہزار ہکٹار پر زراعت کر رہی ہے۔
ریپڈ سپورٹ فورس کا دارفور پر قبضہ
۱۸؍ ماہ کے محاصرے کے بعد ریپڈ سپورٹ فورس نے دارفور کے دارالسلطنت الفاشر پر پچھلے ۲۶؍ اکتوبر کو قبضہ کرلیا جو اس کی ایک بڑی کامیابی مانی گئی ہے۔ اس محاصرے کے دوران شہر الفاشر کے اند ۲؍ لاکھ ۶۰؍ ہزار شہری محصور تھے، جنمیں ایک لاکھ تیس ہزار بچے تھے۔ شہر پر قبضے کے بعد ریپڈ سپورٹ فورس نے وہاں قتل عام کیا یہاں تک کہ سیٹیلائٹ کی تصویروں میں شہر میں خون بہتا ہوا دکھائی دے رہا ہے ۔بیسیوں ہزار لوگ اس کے بعد دوسرے علاقوں میں بھاگ گئے ہیں۔ محاصرے کے دوران سینکڑوں لوگ بھوک اور علاج سے محرومی کی وجہ سے مر گئے۔ پچھلے ۱۸؍ ماہ کی خانہ جنگی میں سوڈان کے مختلف علاقوں میں تقریبا ایک لاکھ پچاس ہزار لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ ان میں سے۶۱؍ ہزار لوگ صرف راجدھانی خرطوم کے علاقے میں ہلاک ہوئےاور ۱۴ ملین لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کرملک کے اندر دوسری جگہوں بلکہ چاڈ، لیبیا اور مصر تک بھاگنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ریپڈ سپورٹ فورس کا الفاشر پر قبضہ ایک بڑی فتح ہے لیکن ضروری نہیں کہ اس سے جنگ کا نقشہ بدل جائے۔ سوڈانی فوج اب بھی ملک کے بڑے علاقے پر قابض ہے اور مختلف طریقوں سے، بالخصوص فضائیہ کے ذریعے، ریپڈ سپورٹ فورس پر حملے کر رہی ہے۔
موجودہ خانہ جنگی کے دوران سوڈان میں اقتصاد، بینک، انڈسٹری، زراعت، تعلیم، اسپتال، اسکول، یونیورسٹیاں وغیرہ سب متاثر ہوئے ہیں۔ تقریبا ۲۵؍ ملین سوڈانی بھکمری کا شکار ہیں اور تقریبا ۱۰؍ ملین بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق موجودہ خانہ جنگی سے سوڈان کو ۲۰۰ بلین (۲۰۰ ہزار ملین) ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
عرب ممالک کی تقسیم کا پلان
کچھ طاقتیں ،بالخصوص امریکہ اور اسرائیل ،مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کےمسلم ممالک کو چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہیں تاکہ ان پر کنٹرول آسان ہوسکے ، پورے علاقے میں اسرائیل کا کوئی حریف باقی نہ رہے اور امریکہ کے لئے پورے علاقے کو کنٹرول کرنا اور ان کا اقتصادی استحصال آسان ہوجائے۔ برسوں سے اس نئے پلان کے نقشے موجود ہیں جس کے تحت پاکستان، افغانستان، ایران، عراق، شام، مصر، سعودی عرب، مصر، لیبیا اور سوڈان وغیرہ کو تقسیم کر کے وہاں علاقائی، قبائلی اور مسلکی بنیاد پر چھوٹے چھوٹے ملک بنائے جائیں گے۔ مختلف ممالک میں پائی جانے والی مذہبی یا قبائلی اقلیتیں اس پلان کا خاص مہرہ ہیں۔ ان کے لئے چھوٹے چھوٹے ملک بنائے جائیں گے تاکہ وہ بیرونی مدد و تایید حاصل کرنے کے لئے مجبور ہوں اور ان کے قدرتی وسائل کو بہتر طور سے لوٹا جا سکے۔ سوڈان کی خانہ جنگی میں غیر ملکی طاقتوں کی دلچسپی اسی پلان کا حصہ ہے۔ پہلے سوڈان کو مصر سے الگ کیا گیا، پھر جنوبی سوڈان کو الگ کر کے اس علاقے میں ایک نیا ملک بنادیا گیا اور اب عرب اور غیر عرب کی بنیاد پر سوڈان کو مزید دو ،تین ٹکڑوں میں بانٹنے کی کوشش ہورہی ہے۔ ریپڈ سپورٹ فورس کا خواب پورے سوڈان پر قبضے کا تھا جو ناکام ہو چکا ہے ، البتہ اس کی وجہ سے سوڈان کی ایک بار پھر تقسیم ہو سکتی ہے ۔
