
عندلیب اختر
مرکز کی جانب سے اشیاء و خدمات ٹیکس (جی ایس ٹی) میں بڑی کٹوتی کو ایک تاریخی قدم قرار دیا جا رہا ہے، خاص طور پر ڈیری سیکٹر کے لیے۔ دودھ اور پنیر کو جی ایس ٹی سے مستثنیٰ قرار دینا، جبکہ مکھن اور گھی پر شرح کو 12 فیصد سے گھٹا کر 5 فیصد کرنا، بظاہر ایک ایسا فیصلہ ہے جو کسانوں اور صارفین دونوں کو فوری ریلیف فراہم کرتا ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس فیصلے کا اثر دودھ اور ڈیری مصنوعات کی قیمتوں پر واقعی نظر آئے گا؟
اقتصادی ماہرین کے مطابق جی ایس ٹی میں کمی سے ڈیری کوآپریٹوز اور کسانوں کے لیے لاگت کم ہوگی، پیکیجنگ اور لاجسٹکس پر بھی بوجھ کم ہوگا، اور مارکیٹ میں مسابقت بڑھے گی۔ اس سے توقع ہے کہ چھوٹے کسان اور سیلف ہیلپ گروپس، جو دودھ کی پروسیسنگ میں مصروف ہیں، اپنی مصنوعات کو سستی قیمت پر صارفین تک پہنچا سکیں گے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف دیہی معیشت کو فروغ ملے گا بلکہ گھریلو سطح پر غذائی تحفظ بھی مضبوط ہوگا، کیونکہ دودھ پروٹین اور کیلشیم کا بنیادی ذریعہ ہے۔
تاہم کچھ ماہرین یہ خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ ڈیری مصنوعات کی قیمتوں کا تعین صرف ٹیکس سے نہیں ہوتا۔ چارہ، بجلی، ایندھن اور لیبر کی بڑھتی لاگت بھی دودھ کی اصل قیمت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اگر یہ لاگت کم نہ ہوئی تو ٹیکس کمی کے اثرات محدود رہ سکتے ہیں اور صارفین کو قیمتوں میں خاطر خواہ فرق محسوس نہیں ہوگا۔
اس کے باوجود، ڈیری انڈسٹری کے بڑے ادارے جیسے امول اس اصلاحات کو مثبت قرار دے رہے ہیں اور مانتے ہیں کہ اس سے کوآپریٹوز کی آمدنی بڑھے گی، کسانوں کو بہتر قیمت ملے گی اور صارفین کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ خاص طور پر خواتین کی قیادت میں چلنے والی دیہی صنعتوں کے لیے یہ ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔
سوال پھر بھی باقی ہے: کیا دکان پر جانے والا صارف آنے والے مہینوں میں واقعی دودھ اور اس کی مصنوعات کو سستی قیمت پر خرید سکے گا، یا پھر یہ فیصلہ محض کاغذی اعداد و شمار تک محدود رہ جائے گا؟

?جی ایس ٹی اصلاحات میں کیا ہے
واضح ہو کے مرکز نے اشیاء و خدمات ٹیکس (جی ایس ٹی) میں بڑے پیمانے پر کمی کا اعلان کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کے یہ ریفارم براہِ راست کوآپریٹوز، کسانوں، دیہی صنعتوں پر اثر ڈالے گا اور ملک کے 10 کروڑ سے زیادہ ڈیری کسانوں کو فائدہ پہنچائے گا۔ یہ اصلاحات کوآپریٹو شعبے کو مضبوط بنائیں گی، ان کی مصنوعات کو مسابقتی بنائیں گی، ان کی مانگ میں اضافہ کریں گی اور کوآپریٹوز کی آمدنی کو بڑھائیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ دیہی کارخانہ داری کو فروغ دیں گی، کھانے کی پروسیسنگ میں کوآپریٹوز کو آگے بڑھائیں گی اور لاکھوں گھرانوں کے لیے ضروری اشیاء تک سستی رسائی کو یقینی بنائیں گی۔ جی ایس ٹی شرح میں یہ کمی کسانوں اور مویشی پروری کی کوآپریٹوز کو فائدہ پہنچائے گی، پائیدار کھیتی کو فروغ دے گی اور چھوٹے کسانوں اور ایف پی اوز کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی۔
ڈیری شعبے میں براہِ راست کسانوں اور صارفین کو ریلیف دیا گیا ہے کیونکہ دودھ اور پنیر، چاہے برانڈیڈ ہوں یا اَن برانڈیڈ، جی ایس ٹی سے مستثنیٰ قرار دیے گئے ہیں۔ مکھن، گھی اور اسی طرح کی مصنوعات پر ٹیکس کو 12 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کر دیا گیا ہے، جبکہ لوہے، اسٹیل یا ایلومینیم سے بنے دودھ کے کین پر بھی جی ایس ٹی 12 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کر دیا گیا ہے۔
یہ اقدامات ڈیری مصنوعات کو زیادہ مسابقتی بنائیں گے، ڈیری کسانوں کو براہِ راست ریلیف فراہم کریں گے اور خواتین کی قیادت میں چلنے والی دیہی صنعتوں کو مضبوط کریں گے، خاص طور پر وہ سیلف ہیلپ گروپس جو دودھ کی پروسیسنگ میں مصروف ہیں۔ سستی ڈیری مصنوعات گھروں کے لیے پروٹین اور چربی کے اہم ذرائع کو مزید سستا بنا کر غذائی تحفظ کو بہتر کریں گی اور ڈیری شعبے میں کوآپریٹوز کی آمدنی میں اضافہ کریں گی۔
کھانے کی پروسیسنگ اور گھریلو اشیاء میں بھی بڑا ریلیف دیا گیا ہے کیونکہ پنیر، نمکین، مکھن اور پاستا پر جی ایس ٹی کو 12 یا 18 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کر دیا گیا ہے، جبکہ جیم، جیلی، خمیر، بھُجیا اور فروٹ پلپ یا جوس پر مبنی مشروبات پر اب صرف 5 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔ چاکلیٹس، کارن فلیکس، آئس کریمز، پیسٹری، کیک، بسکٹ اور کافی پر بھی ٹیکس 18 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کر دیا گیا ہے۔
کم جی ایس ٹی گھریلو اخراجات میں کمی کرے گا، نیم شہری اور دیہی علاقوں میں مانگ کو بڑھائے گا اور فوڈ پروسیسنگ اور ڈیری کوآپریٹو سیکٹر میں ترقی کو فروغ دے گا۔ یہ مزید فوڈ پروسیسنگ، ملک پروسیسنگ کوآپریٹوز اور نجی ڈیریز کو سہارا دے گا اور کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کرے گا۔
اس کے علاوہ پیکنگ پیپر، کیسز اور کریٹس پر جی ایس ٹی کو کم کرکے 5 فیصد کر دیا گیا ہے، جس سے کوآپریٹوز اور فوڈ پروڈیوسرز کے لیے لاجسٹکس اور پیکیجنگ کے اخراجات میں کمی آئے گی۔
1800 سی سی سے کم گنجائش والے ٹریکٹروں پر جی ایس ٹی کو کم کرکے 5 فیصد کر دیا گیا ہے، جس سے ٹریکٹر زیادہ سستے ہوں گے اور اس کا فائدہ نہ صرف فصل اگانے والے کسانوں کو ملے گا بلکہ مویشی پروری اور مخلوط کھیتی کرنے والوں کو بھی ہوگا، کیونکہ یہ ٹریکٹر چارہ اگانے، چارے کی ڈھلائی اور زرعی پیداوار کی مؤثر نقل و حمل میں مددگار ثابت ہوں گے۔ اسی طرح، ٹریکٹر کے پرزہ جات جیسے ٹائرس اور ٹیوبس، ہائیڈرولک پمپس اور دیگر کئی پرزوں پر بھی ٹیکس 18 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کر دیا گیا ہے، جس سے اخراجات مزید کم ہوں گے اور زرعی شعبے کے کئی کوآپریٹوز کو براہِ راست فائدہ پہنچے گا۔
کھاد سازی میں استعمال ہونے والے اہم اجزاء جیسے امونیا، سلفیورک ایسڈ اور نائٹرک ایسڈ پر جی ایس ٹی 18 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کر دیا گیا ہے، جس سے برعکس ٹیکس ڈھانچے کی درستگی ہوگی، کھاد کمپنیوں کے ان پٹ اخراجات کم ہوں گے، کسانوں پر قیمتوں کا بوجھ نہیں بڑھے گا اور بوائی کے موسم میں سستی کھاد وقت پر دستیاب ہو سکے گی۔ اس کا براہِ راست فائدہ زرعی شعبے کے متعدد کوآپریٹوز کو ہوگا۔
اسی طرح بارہ حیاتیائی کیڑے مار ادویات اور کئی چھوٹی غذائی اجزاء پر جی ایس ٹی 12 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کر دیا گیا ہے، جس سے ماحول دوست اور پائیدار کھیتی کو فروغ ملے گا کیونکہ بایو ان پٹس سستے ہوں گے اور کسانوں کو کیمیائی ادویات کے بجائے بایو پیسیٹیسائیڈز اپنانے کی ترغیب ملے گی۔ اس سے مٹی کی صحت اور فصلوں کے معیار میں بہتری آئے گی اور چھوٹے نامیاتی کسانوں اور ایف پی اوز کو براہِ راست فائدہ ہوگا، جو حکومت کی قدرتی کاشت کاری مشن کے مطابق ہے۔ یہ تبدیلی بھی زرعی شعبے کے کئی کوآپریٹوز کے لیے فائدہ مند ہوگی۔
کمرشل گڈز گاڑیوں جیسے ٹرک اور ڈلیوری وین پر جی ایس ٹی کو 28 فیصد سے کم کرکے 18 فیصد کر دیا گیا ہے، جس سے ٹرکوں کی خریداری کی ابتدائی لاگت میں کمی آئے گی۔ یہ ٹرک، جو ملک کی سپلائی چین میں ریڑھ کی ہڈی ہیں اور تقریباً 65 سے 70 فیصد مال برداری کرتے ہیں، اب سستے پڑیں گے۔ اس سے فی ٹن-کلومیٹر کرایہ کم ہوگا، زرعی اجناس کی نقل و حمل سستی ہوگی، لاجسٹکس کی لاگت کم ہوگی اور برآمدات کی مسابقت بڑھے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ، مال برداری کی گاڑیوں کی تھرڈ پارٹی انشورنس پر جی ایس ٹی کو بھی 12 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کر دیا گیا ہے اور ان پٹ ٹیکس کریڈٹ (آئی ٹی سی) کی سہولت دی گئی ہے، جو ان کوششوں کو مزید تقویت دے گا۔
