کٹھمنڈو، 8 ستمبر:
نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں اتوار کے روز سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف نکالے گئے مظاہرے کے دوران پولیس کی فائرنگ سے کم از کم 14 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے۔ یہ مظاہرہ نوجوانوں، خاص طور پر “جنریشن زیڈ” (Gen Z) سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے کیا گیا تھا، جو حکومت کے حالیہ اقدام کو آزادیِ اظہارِ رائے پر حملہ قرار دے رہے ہیں۔

پُرتشدد مظاہرے کا آغاز اور پولیس کارروائی

مظاہرہ اس وقت پُرتشدد ہوگیا جب مظاہرین نے فیڈرل پارلیمنٹ کی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ پولیس نے پہلے آنسو گیس، واٹر کینن، ربڑ کی گولیاں اور ہوائی فائرنگ کے ذریعے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی، مگر حالات قابو سے باہر ہو گئے۔ بالآخر پولیس نے براہِ راست فائرنگ کی جس کے نتیجے میں متعدد جانیں ضائع ہو گئیں۔

ہلاک اور زخمیوں کی تفصیلات

ابتدائی اطلاعات کے مطابق:

  • 5 افراد کی موت ٹراما سینٹر میں ہوئی
  • 2 افراد سیول اسپتال میں جان کی بازی ہار گئے
  • 1 شخص کٹھمنڈو میڈیکل کالج میں دم توڑ گیا
    دیگر ہلاک شدگان کی شناخت تاحال جاری ہے، جبکہ زخمیوں میں سے کئی کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔

سوشل میڈیا پابندی: احتجاج کی اصل وجہ

یہ مظاہرہ نیپال میں 4 ستمبر سے نافذ سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف تھا، جس کے تحت Facebook، Instagram، X (سابقہ ٹوئٹر)، اور YouTube جیسے غیر رجسٹر شدہ پلیٹ فارمز پر ملک بھر میں پابندی لگا دی گئی ہے۔ نوجوانوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ان کی ڈیجیٹل آزادی اور اظہارِ رائے کے بنیادی حق کے خلاف ہے۔

مظاہرین نے احتجاج کے لیے TikTok کا استعمال کیا اور بڑی تعداد میں پارلیمنٹ کی جانب مارچ کیا۔ احتجاج میں “ہماری آواز دبائی نہیں جا سکتی” اور “ڈیجیٹل آزادی ہمارا حق ہے” جیسے نعرے لگائے گئے۔

وزیراعظم کی ہنگامی بیٹھک، دارالحکومت میں کرفیو نافذ

واقعے کے بعد وزیراعظم کے پی شرما اولی نے اپنے رہائش گاہ پر آج شام کونسل آف منسٹرز اور نیشنل سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔

ادھر کٹھمنڈو ضلعی انتظامیہ نے کشیدہ حالات کے پیش نظر بنےشور، ٹنکونے، صدراتی محل اور سنگھ دربار جیسے اہم علاقوں میں دوپہر 12:30 بجے سے رات 10 بجے تک کرفیو نافذ کر دیا ہے۔

سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق تنظیموں کا ردعمل

حکومت کی اس سخت کارروائی پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور اپوزیشن جماعتوں نے شدید تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت عوامی مطالبات کو نظر انداز کرتی رہی تو ملک بھر میں مزید احتجاج بھڑک سکتا ہے۔