Welcome to   Click to listen highlighted text! Welcome to

معروف صحافی، مصنف معصوم مرادآبادی کی دو کتابیں اتوار 18 مئی کو نئی دہلی میں ایک تقریب میں ریلیز کی گئیں۔ اس موقع پر ایک اور نامور صحافی سہیل انجم نے کتابوں کو اپنے منفرد انداز میں متعارف کروایا

سہیل انجم

جنابِ معصوم مرادآبادی کی دو کتابیں ”چہرے پڑھا کرو“ اور ”نگینے لوگ“ پیش نظر ہیں۔ اول الذکر میں 66 مضامین ہیں تو ثانی الذکر میں 27 ۔ مجموعی طور پر ان کی تعدا د 93 ہوتی ہے۔ اب اتنے کم وقت میں اتنے زیادہ مضامین پر کچھ اظہار خیال کرنے کے لیے شورش کاشمیری کے قلم اور بیباکی اور مشفق خواجہ کی ژرف نگاہی کی ضرورت ہے جس سے ہم محروم ہیں۔ بہرحال اپنی فہم کے مطابق کچھ باتیں گوش گزار کریں گے۔ عام طور پر جو چیز قیمتی ہوتی ہے وہ مقدارمیں کم ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے اور اپنے ذوق و دلچسپی کے لحاظ سے بھی ہمیںثانی الذکر یعنی نسبتاً دبلی پتلی کتاب زیادہ پسند آئی۔ لیکن اس پر اظہار خیال بعد میں۔

 اول الذکر کتاب کا مسودہ ہم نے پہلے ہی دیکھا تھا۔ البتہ اب اس میں متعدد مضامین کا اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ مضامین دوسری کتاب کے مضامین سے مختلف ہیں۔ اس میں سرکردہ ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور فنکاروں کے سوانحی خاکے ہیں۔ لیکن یہ صرف سوانحی نہیں ہیں بلکہ ان میں شخصیات کے فن اور خدمات پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔ ان میں ایسی شخصیات بھی ہیں جو اردو ادب کے آفتاب و ماہتاب مانی جاتی ہیں۔ جن کی خدمات اس وقت تک زندہ رہیں گی جب تک کہ اردو زندہ ہے۔ لیکن اس فہرست میں صرف اردو والے ہی نہیں ہیں بلکہ ایسے لوگ بھی ہیں جن کی سرگرمیوں کا میدان دوسرا رہا ہے۔ اس کتاب میں کل پانچ ابواب ہیں۔ پہلے باب میں جہاں شمس الرحمن فاروقی، گوپی چند نارنگ اور پروفیسر شمیم حنفی وغیرہ پر مضامین ہیں تو وہیں دلیپ کمار، اے پی جے عبد الکلام، عبید صدیقی اور محمد خلیق ٹونکی وغیرہ پر بھی مضامین ہیں۔ دوسرا باب صحافیوں کے لیے، تیسرا معروف سماجی شخصیات کے لیے، چوتھا علما و مشائخ کے لیے اور پانچواں سیاست دانوں کے لیے وقف ہے۔ گویا اس کتاب میں مختلف قسم کے ذائقے ہیں جن سے قاری محظوظ ہوگا۔ یہ کتاب ایسی ہے کہ اسے کسی خاص طبقے کے لیے مخصوص نہیں کیا جا سکتا۔ دراصل یہ وہ مضامین ہیں جومختلف اوقات میں لکھے گئے ہیں۔ اس لیے ان کا رنگ بھی الگ الگ ہے۔ تاہم ان مضامین میں معصوم صاحب کا قلم اپنی شناخت بنائے ہوئے ہیں۔ یہ کتاب جہاں اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والوں اور طلبہ کے لیے مفید ہے وہیں دوسرے بہت سے لوگ بھی اس سے استفادہ کر سکیں گے۔

اب آئیے ”نگینے لوگ“ پر گفتگو کرتے ہیں۔ ان 27 مضامین میں کچھ خاکے ہیں، کچھ خاکہ نما ہیں اور کچھ صرف مضامین ہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل ایک بات عرض کرتے چلیں جسے جملہ عترضہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ خاکہ نما مضامین کے ہمارے دوسرے مجموعے ”نقش بر سنگ“ میں تیرہ موجودین پر بھی مضامین ہیں۔ اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے معصوم صاحب نے موجودین پر مضامین لکھنے کی ستائش کی تھی اور ہماری اس رائے سے اتفاق کیا تھا کہ مرحومین پر تو سبھی لکھتے ہیں موجودین پر بھی لکھنا چاہیے۔ اب انھوں نے اس روایت کو آگے بڑھایا ہے اور یہ خوشی کی بات ہے کہ خاکوں کے ان کے مجموعے میں شامل تمام شخصیات بقید حیات ہیں۔ توقع ہے کہ دوسرے لوگ بھی اس سے ترغیب حاصل کریں گے۔

ان خاکوں میں سے کئی نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا۔ ان میں پہلے نمبر پر ”انجمن ترقی اردو ہند“ کے فعال جنرل سکریٹری اور ہمارے پرانے دوست جناب اطہر فاروقی کا خاکہ ہے۔ معصوم مرادآبادی نے بڑی خوبی سے ان کی شخصیت کی تشکیل اور ارتقا کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس سے جہاں ممدوح سے ان کے دیرینہ تعلقات پر روشنی پڑتی ہے وہیں ان کی مشاہداتی نظر کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے جو محسوس کیا اسے بے خوفی کے ساتھ مگر دلچسپ انداز میں لکھ دیا۔ مثال کے طور پر ان کا یہ جملہ ”اطہر فاروقی کی قیادت میں اردو نہ سہی ”انجمن“ خوب ترقی کر رہی ہے“۔ یا پھر یہ جملہ ”وہ اردو سے زیادہ انگریزی سے متاثر ہیں اس لیے ان کے مزاج میں نزاکت اور نرگسیت دونوں ہے“۔ اب ہمیں نہیں معلوم کہ ان کے مزاج میں نزاکت و نرگسیت انگریزی داں ہونے سے آئی یا ان کی طرف باذوق لوگوں کی نظریں اٹھنے اور گڑی رہنے سے۔ جس کا حوالہ خود معصوم صاحب نے بھی اشاروں میں دیا ہے۔ بہرحال ہمارا خیال ہے کہ یہ خاکہ جناب اطہر فاروقی کو بھی خوب پسند آیا ہوگا اور شاید یہی وجہ ہے کہ انھوں نے یہ کتاب شائع کر دی۔ گویا ان دونوںحضرات نے ہم جیسوں کے سامنے ایک راستہ کھول دیا کہ انجمن سے کتاب چھپوانی ہے تو کچھ ایسا ہی کرنا پڑے گا۔ لیکن معذرت کے ساتھ ہم یہاں یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ اس میں خاکے کی خصوصیات صرف وہیں تک ہیں جہاں تک ان کی شخصیت کے ارتقا کا خاکہ کھینچا گیا ہے۔ جہاں سے ان کی علمی خدمات کا ذکر ہوا ہے وہ ایک الگ مضمون ہے۔ ہاں ایک بات اور، وہ یہ کہ اطہر فاروقی کی شخصیت کی تشکیل میں طارق صدیقی، مخمور سعیدی اور افسر جمشید کے کردار کا تو ذکر ہے لیکن سابق رکن پارلیمنٹ و سابق سفیر ہند جناب م افضل کے یوگدان کا کوئی ذکر نہیں۔ غالباً ایسا سہواً ہوا ہوگا۔ ورنہ معصوم صاحب کے افضل صاحب سے بھی بڑے دیرینہ رشتے ہیں۔ جب علی صدیقی نے دہلی کے پرگتی میدان میں انتہائی مہتم بالشان عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد کیا تھا تو اس وقت اطہر فاروقی افضل صاحب کے ہفت روزہ ”اخبارنو“ کے لیے ادبی مضامین لکھا کرتے تھے۔ چونکہ اس وقت ہم اخبار نو کے ایڈیٹوریل میں شامل تھے اس لیے ہمیں بہت سی باتیں معلوم ہیں۔ انھوں نے کانفرنس کے موقع پر انتہائی محنت و مشقت سے کام لیتے ہوئے شعرا وادبا کے ہوٹلوں کی خاک چھان چھان کر ان کے انٹرویوز کیے تھے۔ انھوں نے ان تین دنوں کو نہ دن سمجھا نہ رات۔ افضل صاحب ان انٹرویوز کو یکے بعد دیگرے مہینوں تک، یعنی جب تک وہ ختم نہیں ہو گئے، ہفتہ واری چھاپتے رہے۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان انٹرویوز نے اردو دنیا کی عالمی شخصیات سے اطہر فاروقی کے مراسم قائم ہونے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

دوسرا خاکہ جو ہمیں بہت پسند آیا وہ تحسین منور کا ہے۔ وہ بلا شبہ ہمہ جہت خوبیوں کے مالک ہیں۔ معصوم مرادآبادی نے جس طرح ان کی شخصی و فنی خوبیوں اور ان کے مزاج کی ہمہ رنگی اور تنوع کو پیش کیا ہے وہ کافی دلچسپ ہے۔ ویسے ہم بھی معصوم صاحب کی طرح ان کے والد گرامی جناب پروانہ ردولوی کے شاگرد رہے ہیں۔ لیکن ان کی تنک مزاجی اور ہماری خوف زدگی نے اس عرصے کو لمبا نہیں ہونے دیا۔ اس خاکے کو پڑھ کر ہمیں تحسین منور سے پہلی اور غائبانہ ملاقات یاد آگئی۔ یہ 2007 کی بات ہے۔ اس وقت بقول معصوم مرادآبادی ”لالو پرساد یادو پارلیمنٹ میں سیاست دانوں کو اور تحسین منور ریل بھون میں صحافیوں کو ہنسانے کے کام پر مامور تھے“۔ اس وقت جب ہم نے ایک بہت ضروری کام کے لیے تحسین صاحب کو فون کرکے اپنا تعارف کرایا تو انھوں نے بڑے خلوص سے گفتگو کی اور ہمارا کام کر دیا۔ آپ یقین کریں کہ انھوں نے اپنے اخلاق سے ہمارا دل جیت لیا اور اگلے دن سے ہم انھیں تحسین بھائی کہنے لگے۔ معصوم مرادآبادی نے جس خوبصورتی سے ان کا چھوٹا سا خاکہ لکھا ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے ان کا ذکر تو پرمزاح انداز میں کیا ہے لیکن درحقیقت وہ دل سے ان کے قدردان ہیں۔ تحسین منور کے بارے میں جب بھی کوئی کچھ لکھے گا تو ان کے سرسید کے رول کو اور اس پلے کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سعید عالم کی صلاحیتوں کو نظرانداز نہیں کر سکے گا۔

تیسرے نمبر پر عالمی شہرت یافتہ ناظم، شاعر و صحافی جناب معین شاداب کا خاکہ پسند آیا۔ اگر چہ یہ ان کی کتاب ”اظہار و افکار“ کے حوالے سے ہے اور کتاب کا آخری مضمون ہے لیکن اس میں بہت سی خصوصیات خاکے کی بھی ہیں۔ مذکورہ دونوں یعنی اطہر فاروقی اور تحسین منور کے خاکوں کے برعکس یہ ایک سنجیدہ خاکہ ہے۔ یہ بھی چھوٹا ہے لیکن اس میں سنجیدہ خاکے، کے لیے ضروری تقریباً تمام عناصر موجود ہیں۔ دراصل خاکوں کی کئی اقسام ہوتی ہیں جن میں سنجیدہ خاکے بھی ہیں۔ نواب سائل دہلوی پر مالک رام کا خاکہ ہو یا کچھ غیر اہم لوگوں پر رشید احمد صدیقی کے خاکے ہوں وہ سب سنجیدہ خاکوں کے زمرے میں آتے ہیں۔ معصوم صاحب کے خاکے بھی مختلف اقسام کے ہیں۔ انھی میں یہ سنجیدہ خاکہ بھی ہے۔ معین شاداب صاحب کی کتاب اتنی اچھی اور معیاری ہے کہ اس پر الگ سے مضمون لکھنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے ہمیں جب وہ کتاب عنایت کی تو رمضان المبارک کی آمد آمد تھی اور ہم نے رمضان ہی میں پوری کتاب کی قرا ¿ت کرڈالی تھی۔ اس پر اظہار خیال کی خواہش اسی وقت سے رہی ہے جو تادم تحریر پوری نہیں ہوئی جس کی وجہ سے ہم ان سے نادم رہتے ہیں۔بہرحال معصوم صاحب نے معین شاداب صاحب کی نثر کو یوں خراج تحسین پیش کیا ہے ”جب میں نے کتاب پڑھی تو واقعی مجھے مسرت ہوئی۔ نثر بیزاری کے اس دور میں اگر کوئی مصروف شاعر اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو یہ یقیناً بڑی بات ہے“۔ ہم معصوم صاحب کی اس رائے سے سو فیصد متفق ہیں کہ ان کی نثر ان کی شاعری سے اچھی ہے۔

اسی طرح م افضل صاحب پر تحریر کردہ مضمون بھی ایک سنجیدہ مضمون ہے۔ دراصل اس کتاب میں ایسے کئی لوگوں پر خاکے اور مضامین ہیں جن سے ان کے بے تکلفانہ مراسم ہیں۔ اس لیے ان پر خاکے لکھنے میں انھوں نے لبرٹی سے کام لیا ہے۔ بے تکلفانہ تعلقات تو افضل صاحب سے بھی ہیں اور بہت پرانے ہیں لیکن وہ بے تکلفی نہیں ہے جو ہم عمروں کے ساتھ ہوتی ہے۔ ہم افضل صاحب سے اپنے دیرینہ مراسم اور ذاتی تعلقات اور تجربات کی روشنی میں یہ بات دعوے کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ وہ خود ایک انتہائی سنجیدہ اور وضعدار انسان ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وہ دوسروں کی عزت بھی کرنا جانتے ہیں۔ اس لیے ان کا ذکر جب بھی ہوگا اور جو بھی کرے گا وہ احترام کے ساتھ کرے گا۔ معصوم صاحب نے اسی احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان پر مضمون لکھا ہے اور بالکل درست پیرایہ ¿ بیان اختیار کیا ہے۔ ان کی یہ بات ناقابل تردید ہے کہ ”(افضل صاحب نے) صحافت، سیاست اور سفارت جیسے مختلف اور کئی معنوں میں متضاد میدانوں میں قسمت آزمائی کی اور ہر میدان میں کامیاب و کامران ہو کر گزرے۔ …. کامیابی کی منزلیں طے کرنے کے بعد سب سے پہلے لوگ انھیں لوگوں کو فراموش کر دیتے ہیں جو ان کی زندگی بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ افضل صاحب اپنے محسنوں کو بھی ایسے ہی یاد رکھتے ہیں جیسا کہ وہ اپنے بچپن اور لڑکپن کے دوستوں کو“۔ ہم ان تمام باتوں کی صمیم قلب سے تائید کرتے ہیں۔

اس کتاب کے صرف ایک اور خاکے کا ذکر کریں گے اور وہ ہے حقانی القاسمی کا خاکہ۔ یہ بھی کافی دلچسپ ہے اور حقانی صاحب کی شخصیت کے ان گوشوں پر بھی روشنی ڈالتا ہے جو عام طور پر دوسروں کی نگاہوں سے مخفی ہیں۔ مثال کے طور پر انھوں نے ساو ¿تھ ایونیو میں واقع افضل صاحب کے اخبار کے دفتر میں حقانی صاحب کے کام کرنے کے ذکر کے ساتھ ان کے لحاف کا بھی ذکر کیا ہے۔ لیکن لحاف کے ذکر میں انھوں نے جس طرح چٹکی لی ہے اور جو پیرایہ ¿ بیان اختیار کیا ہے اس سے جانے کیوں عصمت چغتائی کے لحاف کی طرف ذہن منتقل ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود انھوں نے اس طرح ان کی قدر افزائی بھی کی ہے کہ ”اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں کوئی تکلف نہیں کرنا چاہیے کہ وہ ایک ذی علم انسان ہیں اور ان کے ہمعصروںمیں کوئی بھی ان کے پائے کا نہیں“۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر حقانی صاحب کا مقابلہ ان کے پیش رو ادیبوں اور نقادوں سے بھی کیا جائے تو بھی بہت سے ادیب و نقاد ان کے ساتھ چلنے میں ہانپنے لگیں گے۔ ان کا یہ جملہ تو سوفیصد برحق ہے کہ ”انھوں نے اپنے علم کا استعمال اپنی شخصیت کی تعمیر میں نہیں کیا“۔ واقعہ یہ ہے کہ جو واقعی بڑے ہوتے ہیں انھیں اپنی شخصیت سازی کی فکر نہیں ہوتی۔

مذکورہ خاکوں کے علاوہ بھی کئی خاکے دلچسپ ہیں۔ جیسے کہ احمد ابراہیم علوی، ندیم صدیقی، سہیل وحید اور حکیم سید احمد خاں کے خاکے۔ ان میں چھ خاکے یا مضامین کتابوں کے حوالے سے ہیں۔ جن میں معین شاداب کے علاوہ اظہر عنایتی، پاپولر میرٹھی، ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا، شکیل رشید اور ڈاکٹر طارق منظور کے خاکے۔ اس میں جناب م افضل، پروفیسر اختر الواسع، پرفیسر شافع قدوائی، پروفیسر محسن عثمانی، پروفیسر شہپر رسول، عظیم اختر، مودود صدیقی، عارف عزیز اور حسن ضیا وغیرہ پر بھی مضامین ہیں۔

”نگینے لوگ“ کے خاکوں سے قطع نظر ہم خاکوں سے متعلق ایک عام بات کہنا چاہیں گے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ”خاکہ لکھنے اور خاکہ اڑانے اور طنز و مزاح اور تضحیک میں فرق ہونا چاہیے۔ خامیوں اور کمزوریوں کو اچھالنا نہیں چاہیے اور اسی طرح خوبیوں کے بیان میںمبالغہ آرائی بھی نہیں ہونی چاہیے۔لیکن شخصیت کی نمایاں اور منفرد خاصیتوں کو ابھارنا ضروری ہے۔خاکہ نگاری کا مقصد صاحبِ خاکہ شخصیت کی انفرادیت کو نمایاں کرنا ہوتا ہے“ ۔ ہم اس روشنی میں جب ”نگینے لوگ“ کے خاکوں پر نظر ڈالتے ہیں تو انھیں ماہرین کی آرا کے بہت قریب پاتے ہیں۔ خاکوں سے متعلق ایک اور بات کہہ کر ہم اپنی بات ختم کریں گے۔ اپنے خاکوں کے دو مجموعے چھاپنے اور درجنوں پڑھنے کے بعد ہماری یہ رائے بنی ہے کہ شخصی خاکوں میں دوسروں کے اقتباسات نہیں ہونے چاہئیں۔ کیونکہ خاکے، خاکہ نگار کے ذاتی مشاہدات کا آئینہ ہوتے ہیں۔ خاکہ نگاروں کو چاہیے کہ وہ خاکہ نگاری کے میدان میں ہاتھ آزمانے سے قبل معروف خاکہ نگاروں جیسے کہ فرحت اللہ بیگ، اشرف صبوحی، رشید احمد صدیقی، پطرس بخاری، مالک رام، مشتاق یوسفی، ڈاکٹر خلیق انجم، مجتبیٰ حسین اور حفیظ نعمانی وغیرہ کے خاکے پڑھ لیں۔ یہ کتاب گواہی دیتی ہے کہ معصوم مرادآبادی نے معروف خاکہ نگاروں کے خاکوں کا اچھا مطالعہ کیا ہے لیکن اپنی الگ راہ نکالی ہے۔ ہم یہ بھی کہیں کہ معصوم مرادآبادی نے ”نگینے لوگ“ پیش کرکے یہ بتا دیا ہے کہ وہ صرف ایک منجھے ہوئے صحافی ہی نہیں بلکہ ایک خاکہ نگار بھی ہیں۔ اس طرح وہ ایسے خاکہ نگاروں کے قافلے میں شامل ہو گئے ہیں جن کے خاکے لوگ کافی پسند کرتے ہیں۔ ہم ان دونوںکتابوں کے لیے معصوم مرادآبادی کو صمیم قلب سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

( مئی کو انجمن ترقی اردو ہند نئی دہلی کے آڈیٹوریم میں منعقدہ اجرا کے پروگرام میں پڑھا گیا مضمون)۔  

Click to listen highlighted text!