یہ یاترا تیجسوی کے لیے دو دھاری تلوار ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک طرف یہ ان کے کارکنوں میں نئی جان ڈال رہی ہے اور ان کی مقبولیت کو مستحکم کر رہی ہے، تو دوسری طرف یہ کانگریس کے ساتھ تناؤ کو بڑھا رہی ہے۔ اگر اپوزیشن اتحاد کمزور پڑا تو اس کا براہِ راست نقصان اپوزیشن خیمے کو ہوگا اور فائدہ این ڈی اے کے کھاتے میں جائے گا

عندلیب اختر / ارون شریواستو

بہار کی سیاست اس وقت ایک بار پھر گہما گہمی کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ ایک طرف لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے اپنی “ووٹر ادھیکار یاترا” کے ذریعے بہار کی عوام کو متحرک کیا، تو دوسری طرف آر جے ڈی کے لیڈر اور اسمبلی میں اپوزیشن کے قائد تیجسوی یادو نے “بہار ادھیکار یاترا” کے ذریعے میدان سنبھال لیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان یاتراؤں کا اصل مقصد کیا ہے؟ کیا یہ محض عوامی رابطہ مہم ہے یا آنے والے اسمبلی انتخابات کے لیے طاقت کے توازن کو بدلنے کی کوشش؟


راہل گاندھی کی “ووٹر ادھیکار یاترا” نے بہار کی سیاست میں نئی جان ڈال دی۔ یہ سفر صرف ایک علامتی سیاسی قدم نہیں تھا بلکہ کانگریس کے لیے اپنی ساکھ واپس حاصل کرنے کا بڑا موقع بھی۔ اس یاترا میں راہل نے مکھانا کسانوں سے ملاقات کی، نوجوانوں کے مسائل سنے اور روزگار، تعلیم اور مہنگائی پر کھل کر بات کی۔

تیجسوی یادو اس یاترا کے دوران ساتھ تو رہے لیکن میڈیا اور عوام کی نظریں زیادہ تر راہل پر ہی مرکوز رہیں۔ کانگریس لیڈروں نے یاترا کی تنظیم اور انتظام سنبھالا جبکہ آر جے ڈی کے رہنما زیادہ پس منظر میں دکھائی دیے۔ اس کا براہِ راست اثر مستقبل میں سیٹ بٹوارے پر پڑ سکتا ہے۔ کانگریس اس نئی مقبولیت کو بنیاد بنا کر زیادہ حصے کا مطالبہ کر سکتی ہے۔


آر جے ڈی کی جوابی حکمت عملی

اسی پس منظر میں تیجسوی یادو نے اپنی “بہار ادھیکار یاترا” کا آغاز کیا۔ اس بار نہ راہل گاندھی ساتھ ہیں اور نہ ہی دوسرے بڑے اپوزیشن چہرے۔ یہ مکمل طور پر آر جے ڈی کا شو آف اسٹرینتھ ہے۔ پیغام بالکل صاف ہے—”بہار کی اپوزیشن سیاست کا اصل مرکز آر جے ڈی ہی ہے اور قیادت تیجسوی کے ہاتھ میں رہے گی”۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ تیجسوی اس یاترا کے ذریعے یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ کانگریس کو اتحادی کے طور پر ساتھ رکھا جائے گا لیکن اصل فیصلہ کن طاقت آر جے ڈی کے پاس ہے۔ عوامی جلسوں اور ریلیوں میں تیجسوی کی مقبولیت سے کارکنوں کا حوصلہ بلند ہوا ہے اور یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ وہ ریاست میں سب سے بڑے اپوزیشن لیڈر ہیں۔


اتحاد یا اختلاف کا بیج؟

لیکن یہ حکمت عملی خطرات سے خالی نہیں۔ بہار کی سیاست میں اپوزیشن اتحاد ہمیشہ فیصلہ کن رہا ہے۔ جب بھی اپوزیشن بکھرا، فائدہ براہِ راست حکمراں اتحاد کو ہوا۔ 1990 کی دہائی سے لے کر 2019 کے عام انتخابات تک کی تاریخ یہی ثابت کرتی ہے کہ تقسیم شدہ اپوزیشن این ڈی اے کے لیے مضبوط سہارا بنی۔

اگر آر جے ڈی اور کانگریس کے درمیان اس یاترا کے بعد اختلافات بڑھتے ہیں، تو این ڈی اے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ فی الحال کانگریس میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ تیجسوی کی یہ یاترا انہیں پسِ منظر میں دھکیلنے کی کوشش ہے۔ اس سے اپوزیشن اتحاد کی فضا میں دراڑ بھی پڑ سکتی ہے۔


انتخابی ریاضی اور مستقبل کی کشمکش

بہار کی اسمبلی سیاست میں سیٹ بٹوارہ ہمیشہ بڑا مسئلہ رہا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں کانگریس کو محدود نشستیں ملیں اور وہ مضبوط تنظیم نہ ہونے کے باوجود آر جے ڈی کے سہارے نمبر دو کی پارٹی بنی رہی۔ لیکن اب راہل گاندھی کی بڑھتی مقبولیت کانگریس کو زیادہ دعوے کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔

تیجسوی کی “ادھیکار یاترا” کا ایک بڑا مقصد یہی لگتا ہے کہ وہ کانگریس کو یہ پیغام دیں کہ بہار میں اس کا دائرہ محدود ہے اور اصل ووٹ بینک آر جے ڈی کے پاس ہی ہے۔ اس حکمت عملی سے آر جے ڈی اپنی “بڑے بھائی” کی پوزیشن برقرار رکھنا چاہتی ہے۔


دو دھاری تلوار

یہ بات بھی سچ ہے کہ یہ یاترا تیجسوی کے لیے دو دھاری تلوار ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک طرف یہ ان کے کارکنوں میں نئی جان ڈال رہی ہے اور ان کی مقبولیت کو مستحکم کر رہی ہے، تو دوسری طرف یہ کانگریس کے ساتھ تناؤ کو بڑھا رہی ہے۔ اگر اپوزیشن اتحاد کمزور پڑا تو اس کا براہِ راست نقصان اپوزیشن خیمے کو ہوگا اور فائدہ این ڈی اے کے کھاتے میں جائے گا۔


یہ واضح ہے کہ تیجسوی کی “ادھیکار یاترا” صرف ایک سیاسی سرگرمی نہیں بلکہ 2025 کے اسمبلی انتخابات کی تیاری کا مرکزی حصہ ہے۔ یہ یاترا طے کرے گی کہ اپوزیشن کس حد تک متحد رہ پاتا ہے اور کس طرح سیٹ بٹوارے کے پیچیدہ عمل کو سلجھاتا ہے۔

راہل گاندھی کی پہلی یاترا اور اب تیجسوی کی یہ دوسری یاترا مل کر بہار کی سیاست کو نئے موڑ پر لے آئی ہیں۔ آنے والے مہینوں میں یہ واضح ہو جائے گا کہ یہ یاترا اپوزیشن کو طاقت دے گی یا اختلافات کو مزید گہرا کرے گی۔