راہل گاندھی کے “ہائیڈروجن بم” کے استعارے نے اپوزیشن کی تحریک کو نئی توانائی دی ہے۔ چاہے یہ محض سیاسی مبالغہ ہو یا حقیقی انکشافات کی تیاری، لیکن اس نے بہار کے انتخابی منظرنامے کو پہلے ہی گرم کر دیا ہے۔

اسٹاف رپورٹر
پٹنہ: کانگریس کی ’’ووٹر ادھیکار یاترا‘‘ پیر کو پٹنہ میں ایک شعلہ بار انجام کو پہنچی جب پارٹی کے رہنما راہل گاندھی نے بی جے پی پر سنگین الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ وہ جلد ہی ایک ایسا “ہائیڈروجن بم” پھوڑیں گے جس سے ووٹ چوری کی حقیقت پورے ملک کے سامنے آجائے گی۔
یہ یاترا 17 اگست کو ساسارام سے شروع ہوئی اور چودہ دن تک بہار کے کونے کونے میں گونجتی رہی۔ راہل گاندھی اور انڈیا بلاک کے دیگر رہنما تقریباً 1,300 کلومیٹر پیدل چلے، 25 اضلاع اور 100 سے زیادہ اسمبلی حلقوں کا دورہ کیا۔ یاترا کا مقصد عوام میں ووٹ کے حق کے لیے شعور بیدار کرنا بتایا گیا لیکن اس کا اختتام بی جے پی اور الیکشن کمیشن پر براہِ راست سنگین حملوں کے ساتھ ہوا۔
“ایٹم بم کے بعد ہائیڈروجن بم”
پٹنہ کے گاندھی میدان سے شروع ہونے والے آخری جلسے میں ہزاروں افراد شریک تھے۔ یہاں سے “گاندھی سے امبیڈکر” مارچ کیا گیا جس میں کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے، آر جے ڈی کے تیجسوی یادو، جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین، سی پی آئی (ایم ایل) کے دیپانکر بھٹاچاریہ، شیو سینا (یوبی ٹی) کے سنجے راوت، ترنمول کانگریس کے یوسف پٹھان اور سی پی آئی (ایم) کے ایم۔ اے۔ بیبی سمیت اپوزیشن کے بڑے لیڈر کندھے سے کندھا ملا کر شریک ہوئے۔
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا:
“بی جے پی والوں نے ہمیں سیاہ جھنڈے دکھائے۔ لیکن میں انہیں کہنا چاہتا ہوں، ایٹم بم کے بعد ایک چیز ہوتی ہے – ہائیڈروجن بم۔ مہادیواپورہ میں ہم نے ایٹم بم دکھایا، اب تیار رہو، ہائیڈروجن بم پھٹے گا۔ پورا ملک دیکھے گا کہ بی جے پی نے کس طرح انتخابات میں ووٹ چوری کی ہے۔”
“ووٹ چوری صرف بیلٹ کی نہیں، حقوق کی بھی”
راہل نے الزام لگایا کہ کرناٹک کے مہادیواپورہ حلقے میں ایک لاکھ جعلی ووٹ درج کیے گئے اور مہاراشٹر میں “ایک کروڑ نئے ووٹرز” اچانک فہرست میں شامل کر دیے گئے جن کا فائدہ صرف بی جے پی کو پہنچا۔ ان کے مطابق، شیو سینا-این سی پی-کانگریس اتحاد نے عوام کا مینڈیٹ جیتا لیکن “الیکشن کمیشن کی ملی بھگت سے” بی جے پی نے انتخاب چرا لیا۔
راہل نے مزید کہا:
“یہ صرف ووٹ کی چوری نہیں بلکہ ہر شہری کے حق کی لوٹ ہے۔ یہ آپ کا ریزرویشن، آپ کا راشن، آپ کی زمین، آپ کی نوکریاں اور آپ کا مستقبل چھین رہے ہیں۔ یہ لڑائی جمہوریت کے بچاؤ کی لڑائی ہے۔”
انہوں نے کہا کہ جب “ہائیڈروجن بم” کے انکشافات سامنے آئیں گے تو وزیر اعظم نریندر مودی قوم کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
اتحادی رہنماؤں کی سخت تنقید
راہل کے بعد تیجسوی یادو نے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو “بھیشم پتامہ آف کرپشن” قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت میں ووٹر لسٹ میں دھاندلی عام ہے۔ “ڈبل انجن حکومت کا ایک انجن جرم اور دوسرا کرپشن ہے۔ ووٹروں کے نام کاٹے جا رہے ہیں اور جعلی نام جوڑے جا رہے ہیں۔ عوام اس دھوکے کو کبھی معاف نہیں کریں گے،” انہوں نے کہا۔
جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے اپنے خطاب میں کہا: “لوک سبھا الیکشن کے دوران مجھے جیل بھیج دیا گیا لیکن جب اسمبلی الیکشن میں میں واپس آیا تو عوام نے ہمیں زبردست اکثریت دی۔ یہ ووٹ کی طاقت ہے، اس کی حفاظت ایسے کریں جیسے اپنی جان کی کرتے ہیں۔”
کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے نے کہا کہ بہار ہمیشہ جمہوریت کی دھڑکن رہا ہے۔ اشوک گہلوت نے اس یاترا کو ایک قومی تحریک کا آغاز قرار دیا اور کہا: “اگر جمہوریت کو بچانا ہے تو ووٹ کے حق کو بچانا ہوگا۔ بہار سے جو صدا اٹھی ہے وہ پورے ہندوستان میں گونجے گی۔”

ووٹ کے حق پر نئی جنگ
تجزیہ کاروں کے مطابق ’’ووٹر ادھیکار یاترا‘‘ کا اصل مقصد بہار کے آنے والے اسمبلی انتخابات سے پہلے اپوزیشن کا طاقت کا مظاہرہ تھا۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ ووٹر لسٹ کی ’’اسپیشل ریویژن‘‘ کے دوران بڑے پیمانے پر چھیڑ چھاڑ کی جا رہی ہے تاکہ بی جے پی کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔
راہل گاندھی کے “ہائیڈروجن بم” کے استعارے نے اپوزیشن کی تحریک کو نئی توانائی دی ہے۔ چاہے یہ محض سیاسی مبالغہ ہو یا حقیقی انکشافات کی تیاری، لیکن اس نے بہار کے انتخابی منظرنامے کو پہلے ہی گرم کر دیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ یاترا واقعی عوامی رائے کو بی جے پی کے خلاف موڑ پائے گی یا یہ صرف ایک سیاسی شو ثابت ہوگی؟ لیکن ایک بات طے ہے کہ ’’ووٹ چوری‘‘ کا مسئلہ آنے والے مہینوں میں قومی سیاست کا سب سے بڑا موضوع بننے والا ہے۔
بی جے پی کا ردعمل
راہل کے بیانات پر بی جے پی کی جانب سے فوری ردعمل آیا۔ سابق مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے کہا: “راہل گاندھی الیکشن میں ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم کی بات کر کے خود کو مضحکہ خیز بنا رہے ہیں۔ یہ غیر ذمہ دارانہ بیانات ہیں جن سے صرف ان کی سیاسی ساکھ کمزور ہو رہی ہے۔”
