
ارون سریواستو / عندلیب اختر
بہار کی سیاست میں حال ہی میں راہل گاندھی کی قیادت میں نکالی گئی ووٹ ادھیکار ریلی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ کیا یہ ریلی صرف “ووٹ چوری” جیسے الزامات کے ذریعے اپوزیشن ووٹروں کو یکجا کرنے کی کوشش تھی، یا اس کے پیچھے ذات پات کے مساوات کو سنبھالنے کی گہری حکمتِ عملی چھپی ہوئی ہے؟ سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اس ریلی کے ذریعے راہل گاندھی نے بہار کے ذات پات کے اتحاد کو نئے سرے سے پرکھنے اور اپوزیشن کے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔
بہار میں راشٹریہ جنتا دل (آرجے ڈی) اور ماؤ وادی لبریشن فرنٹ (مالے) کا تنظیمی ڈھانچہ سب سے مستحکم مانا جاتا ہے۔ آرجے ڈی نے سالہا سال سے مسلم۔یادو اتحاد کے دم پر اقتدار میں اپنی حصے داری بنائی ہے، جبکہ مالے کی گرفت زمین سے محروم اور بائیں بازو کے رجحان والے ووٹروں پر رہی ہے۔ اس کے برعکس، کانگریس آہستہ آہستہ اپنے ذات پات کے سہارے اور تنظیمی بنیاد کو کھوتی گئی، جس کا نتیجہ 2020 کے اسمبلی انتخابات میں سامنے آیا۔ لیکن راہل گاندھی کی حالیہ پیدل یاترا اور دلت، آدیواسی اور پسماندہ طبقات کے لیے اٹھائی گئی آوازوں سے کانگریس ایک بار پھر ان طبقوں میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ریلی میں یہ صاف دکھا کہ راہل نے مسلم۔یادو اتحاد سے آگے بڑھتے ہوئے پسماندہ اور انتہائی پسماندہ ذاتوں کو جوڑنے پر زور دیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خاص طور پر مکھانہ کسانوں کے بیچ پہنچے۔ مکھانہ کی پیداوار سے زیادہ تر ملاح اور مسلم برادری جڑی ہوئی ہے۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ اس مہم سے تیجسوی یادو کو دور رکھا گیا۔ تیجسوی یادو یادو برادری کے مضبوط لیڈر مانے جاتے ہیں، لیکن غیر یادو اور بے زمین ذاتوں میں ان کی قبولیت نسبتاً کم ہے۔ راہل گاندھی اسی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرتے نظر آئے۔
ریلی کے دوران اپوزیشن اتحاد کا مظاہرہ بھی اہم رہا۔ اکھلیش یادو اور ایم کے اسٹالن جیسے رہنماؤں کی موجودگی نے یہ پیغام دیا کہ انڈیا اتحاد بہار میں متحد ہوکر میدان میں ہے۔ نوجوانوں کو لبھانے کے لیے راہل گاندھی نے بُلٹ موٹر سائیکل ریلی نکالی اور ٹی شرٹ پہن کر قیادت کی، جس سے ان کی متحرک اور جوان شبیہ کو ابھارنے کی کوشش نظر آئی۔
2020 کے انتخاب میں نتیش کمار کو دوبارہ اقتدار میں لانے میں خواتین ووٹروں کی بڑی بھومکا تھی۔ اسی ووٹ بینک میں دراڑ ڈالنے کے لیے کانگریس نے پرینکا گاندھی، روہنی آچاریہ اور تیجسوی کی بہنوں کو آگے کیا۔ خاص طور پر پرینکا گاندھی کا بُلٹ موٹر سائیکل پر ہیلمٹ لگا کر ریلی میں شامل ہونا سوشل میڈیا پر خوب موضوعِ بحث رہا، جس نے خواتین ووٹروں تک ایک واضح پیغام پہنچایا۔
پٹنہ کے گاندھی میدان میں ریلی کے آخری پڑاؤ پر اُمڈا ہوا مجمع اس بات کا اشارہ تھا کہ اپوزیشن کا پیغام عوام تک پہنچ رہا ہے۔ لیکن اصل چیلنج اب اس ہجوم کو ووٹوں میں بدلنے کا ہوگا۔ کانگریس کا بہار میں تنظیمی ڈھانچہ کمزور ہے، جبکہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے رضاکاروں کی گہری جمی ہوئی پہنچ ہے۔ ایسے میں، اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے آرجے ڈی اور مالے کو آگے بڑھ کر قیادت کرنی ہوگی۔ ان دونوں جماعتوں کے پاس کانگریس کے مقابلے کہیں زیادہ کارکن اور تنظیمی طاقت ہے، جو انتخابی عمل کے آخری مرحلے یعنی بوتھ تک ووٹروں کو لے جانے میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے۔
مجموعی طور پر، ووٹ ادھیکار ریلی محض احتجاجی پلیٹ فارم نہیں بلکہ ذات پات کے مساوات کو سنبھالنے اور بی جے پی۔جے ڈی یو کے ووٹ بینک میں دراڑ ڈالنے کی ایک منظم کوشش نظر آتی ہے۔ راہل گاندھی نے اس ریلی کے ذریعے خود کو نہ صرف ایک قومی لیڈر کے طور پر بلکہ بہار کی سیاست کے مرکز میں لانے کا کام کیا ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ یہ حکمتِ عملی انتخابی نتیجوں میں کتنی کارگر ثابت ہوتی ہے۔
