
عتیق الزماں نواب
پٹنہ، پروفیسر ابو بکر رضوی نے پیر کے روز پاٹلی پترا یونیورسٹی کے رجسٹرار کی حیثیت سے عہدہ سنبھالتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی کی ترقی اور اسے علمی بلندیوں تک لے جانا ان کی اولین ترجیح ہوگی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یونیورسٹی میں بہتر تعلیمی ماحول کا قیام نہایت ضروری ہے، کیونکہ تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جو زندگی کو سنوار سکتی ہے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر رضوی نے کہا کہ وہ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے کسی بھی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کریں گے۔ ان کے مطابق، کامیابی کا واحد راستہ معیاری تعلیم ہے اور یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ اس معیار کو بلند کریں۔
تعلیمی ترقی اور نظم و نسق پر توجہ
پروفیسر رضوی نے کہا کہ وائس چانسلر پروفیسر اپیندر سنگھ کی رہنمائی میں یونیورسٹی کو نئی شناخت دی جائے گی۔ انہوں نے ماضی میں ٹی پی ایس کالج میں وائس چانسلر کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ حاصل کیا ہے، جو اب یونیورسٹی انتظامیہ میں بہتری لانے میں مدد دے گا۔ انہوں نے پی جی کورسز کے قیام کو اپنی ترجیحات میں شامل قرار دیا اور ایک بہتر اور مربوط ٹیم کے طور پر کام کرنے پر زور دیا۔
عہدہ سنبھالنے کے پہلے ہی دن، رجسٹرار نے یونیورسٹی کے تمام افسران اور ملازمین کے ساتھ میٹنگ کی، جہاں اتحاد و اتفاق کے ساتھ کام کرنے پر اتفاق رائے ہوا۔

علمی سفر اور خدمات
پروفیسر ابو بکر رضوی نے اپنی ابتدائی تعلیم کشن گنج سے حاصل کی جہاں وہ ضلع میں اول آئے، بعد ازاں انہوں نے پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور ٹاپ پوزیشن حاصل کی۔ وہ یوجی سی نیٹ پاس کرنے کے بعد تقریباً دس سال تک پٹنہ یونیورسٹی میں اردو کے طلبہ کو ایم اے کی تعلیم دیتے رہے۔
سال 2003 میں یونیورسٹی سروس کمیشن کے ذریعے وہ متھلا یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے منسلک ہوئے اور بعد میں ٹی پی ایس کالج میں بیس سال تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ اس دوران وہ شعبہ اردو کے صدر بھی رہے، ساتھ ہی کنٹرولر آف ایگزامینیشن اور پراکٹر جیسے اہم عہدوں پر بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
علمی مقام اور ادبی خدمات
پروفیسر رضوی اردو زبان و ادب کے مشہور نقاد، افسانہ نگار اور درجنوں کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ ان کی ادبی خدمات سے اردو کی نئی نسلوں کو مسلسل فائدہ پہنچتا رہے گا۔
رجسٹرار بنائے جانے پر مبارکباد دینے والوں کا سلسلہ جاری ہے، جن میں پروفیسر ڈاکٹر آفتاب اسلم، نواب عتیق الزماں، پروفیسر سعد بن حامد اور دیگر ممتاز شخصیات شامل ہیں۔ یونیورسٹی حلقوں میں ان کے تقرر کو علمی ترقی کی جانب مثبت قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
