نئی دہلی: (نامہ نگار) — انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹواسٹڈیز اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات نے مولانا ابوالکلام آزاد کی زندگی اور خدمات پر دو روزہ قومی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ کانفرنس کے افتتاحی خطبے میں مقررین نے مولانا کی ہمہ جہت شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا۔

یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سیدعین الحسن نے کہا کہ “کسی ایک شخص میں سب کچھ نہیں ہوتا لیکن مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت ایسی تھی کہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ سب کچھ اسی میں ہے۔” انہوں نے مولانا کو “ایک ایسا بادشاہ قرار دیا جس کی آواز سنی نہیں گئی” اور کہا کہ وہ “وحدت میں کثرت کی آواز تھے”۔ پروفیسر حق نے علامہ شبلی اور مہاتما گاندھی جیسی عظیم شخصیات پر ان کے گہرے اثرات کا بھی ذکر کیا۔

وائس چانسلر پروفیسر اپنے خطبۂ افتتاحیہ میں مولانا کو “ایک ایسا بادشاہ جس کی آواز سنی نہ گئی” قرار دیا اور کہا کہ ان میں “وحدت میں کثرت” کی جھلک تھی۔ انہوں نے بتایا کہ مولانا آزاد کا عروج ایسے وقت میں ہوا جب سرسید، حالی اور شبلی جیسی بلند پایہ شخصیات موجود تھیں، لیکن ایک نوجوان منظر پر چھایا اور علامہ شبلی نے اتنا متاثر ہوکر انہیں الندوہ کا ایڈیٹر مقرر کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 1920ء میں گاندھی جی سے ملاقات کے بعد 1923ء میں مولانا آزاد سب سے کم عمر کانگریس صدر بنے۔

جے این یو کے پروفیسر آفتاب کمال پاشا نے مولانا آزاد کو “معمارِ قوم” قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ مکالمے کے بادشاہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی و ثانوی تعلیم کے مضبوط ڈھانچے کی تشکیل، تحقیق کی حوصلہ افزائی اور قومی یکجہتی کے فروغ میں ان کا کردار ناقابلِ مثال ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کی تہذیبی شناخت کو بچانے میں مولانا کی قربانیاں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

جامعہ ہمدرد کے وائس چانسلر پروفیسر افشار عالم نے انہیں ایک “ہشت پہلو” شخصیت قرار دیا اور کہا کہ وہ سب سے کم عمر مجاہد آزادی اور کانگریس صدر تھے۔ انہوں نے مولانا کی تعلیمی، ادبی اور سیاسی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان جیسی شخصیتیں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔

مرکزی جمعیت اہلحدیث کے امیر، مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے مولانا کو صدی کی سب سے عظیم شخصیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ مولانا آزاد نے مذاہب کے درمیان تصادم ختم کرنے کے لیے اصولِ خمسہ کی وکالت کی اور انہیں “دورِ حاضر کا مجدد” قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مولانا کی اصل خراج عقیدت یہی ہوگا کہ ان کی فکر کو ہر فرد اپنے اندر جذب کرے۔

آئی او ایس کے چیئرمین پروفیسر محمد افضل وانی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ مولانا کے دو پہلو خاص توجہ کے مستحق ہیں: ایک، “ہندوستان کیا ہے” اور دوسرا، “ہندوستان کا آئین کیا ہے” اور ان دونوں کی تشکیل میں مولانا کا کیا کردار تھا۔ انہوں نے کہا کہ دستور کی تمہید میں جو باتیں کہی گئی ہیں وہ دراصل مولانا کی ہی آواز ہے۔ انہوں نے مولانا کے سائنٹفک مزاج کو اجاگر کرتے ہوئے ان کے اس جملے کو دہرایا: “شک کا کوئی کانٹا نہیں جو میرے دل کو نہ چھوا ہو، لیکن میں پھر بھی اپنے ایمان پر قائم ہوں۔”

پروفیسر وانی نے کہا کہ مولانا صرف وزیر تعلیم یا سائنس و ٹکنالوجی کے وزیر ہی نہیں، بلکہ وہ ہندوستان کے ثقافتی سفیر بھی تھے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب میں بڑے جورسٹ اور فقیہ پیدا ہوئے، مگر ان کے پیچھے کوئی فرقہ نہیں چلا۔ مولانا کی علمی جرات اور فکری خوداعتمادی ان کا طرۂ امتیاز ہے۔

اجلاس کا آغاز قاری عدنان احمد ندوی کی تلاوت و ترجمۂ قرآن سے ہوا، جبکہ نظامت کے فرائض شاہ اجمل فاروق ندوی نے انجام دیے۔ کانفرنس کے تعارفی کلمات میں انہوں نے بتایا کہ آئی او ایس سال میں دو کانفرنسز منعقد کرتا ہے اور یہ سلسلہ دس برسوں سے جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی اور آئی او ایس کی یہ مشترکہ کوشش مولانا آزاد کی فکری جہات کو عوام تک پہنچانے کی ایک تحریک کا نقطہ آغاز ہے۔

کانفرنس کا اختتام آئی او ایس کی نائب صدر پروفیسر حاشیہ حسینہ کے کلماتِ تشکر پر ہوا۔

یہ کانفرنس اس بات کا مظہر بنی کہ مولانا ابوالکلام آزاد محض ایک ماضی کی عظیم شخصیت نہیں بلکہ ایک ایسا فکری مینارہ ہیں جس سے آج بھی روشنی لی جاسکتی ہے، بشرطیکہ ہم ان کے نظریات کو محض رسمی خراج عقیدت تک محدود نہ رکھیں بلکہ اپنی عملی زندگی میں انہیں اختیار بھی کریں۔