
عندلیب اختر
بھارت اور برطانیہ نے حال ہی میں ایک تاریخی جامع اقتصادی و تجارتی معاہدہ (CETA) پر دستخط کیے ہیں، جو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی، اقتصادی اور سفارتی تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز ثابت ہو رہا ہے۔ اس معاہدے کا مقصد نہ صرف دوطرفہ تجارت کو 2030 تک دوگنا کرنا ہے بلکہ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا، چھوٹے صنعتکاروں کو بین الاقوامی سطح پر لے جانا اور سروسز سیکٹر میں ہنرمندوں کے لیے راہیں ہموار کرنا بھی ہے۔
یہ معاہدہ پر بھارت کے وزیر تجارت و صنعت پیوش گوئل اور برطانیہ کے وزیر تجارت جوناتھن رینولڈز نے لندن میں دستخط کیا، جس موقع پر دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نریندر مودی اور سر کیر اسٹارمر بھی موجود تھے۔ اس موقع پر ڈاکٹر ایس جے شنکر اور برطانوی چانسلر راچل ریوز بھی شریک تھے، جو اس معاہدے کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
بھارتی مصنوعات کے لیے تاریخی موقع
CETA کا سب سے اہم پہلو بھارتی اشیاء کو برطانیہ کی مارکیٹ میں بے مثال رسائی فراہم کرنا ہے۔ معاہدے کے تحت تقریباً 99 فیصد ٹیرف لائنز پر زیرو ڈیوٹی کا وعدہ کیا گیا ہے، جو تقریباً 100 فیصد تجارتی مالیت پر محیط ہے۔ اس سے خاص طور پر بھارت کے محنت کش طبقے سے جڑی صنعتیں فائدہ اٹھائیں گی۔ٹیکسٹائل اور کپڑے، جو پہلے 12 فیصد تک ڈیوٹی کا سامنا کرتے تھے، اب مکمل طور پر ڈیوٹی فری ہوں گے۔ چمڑے اور جوتوں پر 16 فیصد تک ڈیوٹی تھی، وہ بھی ختم ہو جائے گی۔ سمندری غذا پر 20 فیصد تک کی ڈیوٹی تھی، جو زیرو ہو جائے گی۔ یہی نہیں، فوڈ پراسیسنگ، فرنیچر، کھیلوں کے سامان اور جیولری جیسی مصنوعات کو بھی اب برطانیہ میں مفت رسائی حاصل ہو گی۔یہ چھوٹے، درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (MSMEs)، خواتین کاروباریوں، اور ہنرمند کاریگروں کے لیے سنہری موقع ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف برآمدات بڑھیں گی بلکہ دیہی معیشت کو بھی ایک نئی زندگی ملے گی۔
خدمات کے شعبے میں پہلی بار بلند سطح کی شراکت
CETA میں خدمات کے شعبے کو بھی خاص اہمیت دی گئی ہے، جو اس معاہدے کو ماضی کے دیگر تجارتی معاہدوں سے ممتاز بناتی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی، مالیاتی خدمات، پروفیشنل سروسز، تعلیم، ٹیلی کمیونیکیشن، انجینئرنگ اور آرکیٹیکچر جیسے شعبے اس میں شامل ہیں۔ برطانیہ کی جانب سے ان شعبوں میں دی گئی سہولیات بھارتی کمپنیوں اور ہنرمندوں کے لیے عالمی مواقع کھول سکتی ہیں۔ ساتھ ہی بھارتی پروفیشنلز کے لیے آسانیاں اور سماجی تحفظ میں چھوٹ کی پیش کش کی گئی ہے۔اس معاہدے کے تحت بھارتی پروفیشنلز کو برطانیہ میں داخلے اور کام کرنے میں سہولت ملے گی۔ 1,800 تک بھارتی شیف، یوگا انسٹرکٹرز، موسیقار اور دیگر خودمختار پیشہ ور افراد برطانیہ جا کر عارضی طور پر خدمات دے سکیں گے۔ اس کے علاوہ، کمپنیوں کے اندر تبادلے، بزنس وزیٹرز اور کنٹریکٹ سروس فراہم کنندگان کو بھی آسانیاں فراہم کی گئی ہیں۔
مزید یہ کہ، تین سال تک بھارتی ملازمین اور کمپنیوں کو برطانیہ میں سوشل سیکورٹی کنٹریبیوشن سے استثنیٰ حاصل ہوگا، جو تنخواہ میں اضافے اور کاروباری لاگت میں کمی کا باعث بنے گا۔ اندازہ ہے کہ اس سے 75,000 بھارتی پروفیشنلز کو فائدہ ہوگا۔
دونوں ممالک کے لیے معاشی فوائد
اس وقت بھارت اور برطانیہ کے درمیان تجارتی حجم تقریباً 56 ارب ڈالر ہے، جسے 2030 تک دگنا کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ برطانیہ کو امید ہے کہ یہ معاہدہ اس کی معیشت میں سالانہ 4.8 ارب پاو?نڈ کا اضافہ کرے گا۔برطانوی مصنوعات جیسے جِن اور وِسکی پر بھارتی ٹیرف کو فوری طور پر 150 فیصد سے کم کر کے 75 فیصد کیا جائے گا، جو 2035 تک 40 فیصد تک آ جائے گا۔ اسی طرح ایروسپیس، میڈیکل ڈیوائسز، چاکلیٹس، بسکٹ، لیمب، سیلمَن، اور کاسمیٹکس جیسی مصنوعات پر بھی بھارتی ٹیرف کم ہوں گے۔
یہ معاہدہ صرف تجارت تک محدود نہیں۔ دونوں ممالک نے دفاع، تعلیم، ماحولیات، انسداد بدعنوانی، اور مجرمانہ ریکارڈ شیئرنگ جیسے حساس شعبوں میں تعاون کو بھی وسعت دینے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ بھارت اور برطانیہ ایک جامع شراکت داری کی طرف گامزن ہیں۔
معاہدے کو بھارتی کابینہ سے منظوری مل چکی ہے، لیکن اسے برطانوی پارلیمنٹ کی منظوری درکار ہے۔ امکان ہے کہ یہ معاہدہ ایک سال کے اندر نافذالعمل ہو جائے گا۔ ساتھ ہی، بھارت-یو کے دو طرفہ سرمایہ کاری معاہدے (BIT) پر بات چیت جاری ہے، جس کا مقصد سرمایہ کاری کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔
بھارتی صنعت نے اس معاہدے کو سراہا ہے۔ Deloitte India کے انیل تلریجہ نے اسے ایک اسٹریٹجک شفٹ قرار دیا۔ CMS IndusLaw کے ششی میتھیوز نے کہا کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان ایک جدید، آگے بڑھتی ہوئی شراکت داری کی بنیاد ہے۔ CITI کے چیئرمین راکیش مہرا نے کہا کہ یہ ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے فیصلہ کن موڑ ثابت ہوگا۔
بھارت اور برطانیہ کے درمیان حالیہ دستخط شدہ جامع اقتصادی و تجارتی معاہدہ (CETA) نہ صرف دو طرفہ تجارت کو
نئی بلندیوں تک لے جانے کا وعدہ کرتا ہے بلکہ یہ بھارت کے چھوٹے کاروبار، خواتین صنعت کاروں اور روزگار کے مواقع میں بھی انقلابی تبدیلی لا سکتا ہے۔ اس معاہدے کا مقصد 2030 تک دو طرفہ تجارت کو دگنا کرنا ہے، جو اس وقت تقریباً 56 ارب ڈالر کی سطح پر ہے۔یہ معاہدہ نہ صرف تجارت بلکہ روزگار، خدمات، مہارت، اور سفارتی تعلقات کے میدان میں بھی ایک انقلاب لا سکتا ہے۔ بھارت کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ اپنی برآمدی معیشت کو نئی بلندیوں تک پہنچائے، جبکہ برطانیہ کو ایک بڑی، ابھرتی ہوئی مارکیٹ تک رسائی حاصل ہو رہی ہے۔ یہ معاہدہ یقینی طور پر دونوں ممالک کو عالمی معیشت میں ایک اہم مقام دلانے میں مدد دے گا۔
بھارت-برطانیہ تجارتی معاہدہ صرف ایک اقتصادی سمجھوتہ نہیں بلکہ بھارت کی عالمی تجارتی حکمت عملی میں ایک وژنری قدم ہے۔ یہ نہ صرف برآمدات اور سرمایہ کاری کو فروغ دے گا بلکہ بھارتی ہنر، صنعت اور ثقافت کو عالمی سطح پر پھیلانے میں معاون ہوگا۔ اگر اسے مؤثر طریقے سے نافذ کیا جائے تو یہ معاہدہ بھارت کو ٹریڈ سپرپاور بنانے کے سفر میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔AMN
