بھارت کی برآمدات پر سنگین اثرات لاکھوں ملازمتیں خطرے میں

عندلیب اختر
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارتی برآمدات پر 50 فیصد ٹیکس عائد کرنے کے بعد بھارت شدید معاشی دباؤ کا شکار ہے۔ ان محصولات نے سب سے زیادہ اثر ٹیکسٹائل، چمڑے اور چھوٹے پیمانے کی مشینری جیسی صنعتوں پر ڈالا ہے، جو لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کرتی ہیں۔
گجرات، تمل ناڈو اور اتر پردیش جیسے صنعتی صوبوں میں برآمدکنندگان نے تشویش ظاہر کی ہے کہ نئی پالیسی کے بعد امریکی منڈی میں ان کی مسابقت ختم ہو جائے گی۔ کئی کارخانوں کو پہلے ہی آرڈر منسوخی اور ترسیلات میں تاخیر کا سامنا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے صورتحال سے نمٹنے کے لیے چھ سال پر مشتمل 28 ارب ڈالر کے امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت برآمدکنندگان کو افریقی، مشرقِ وسطیٰ اور لاطینی امریکی منڈیوں تک رسائی دلانے کے اقدامات کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ برآمدی قرضوں پر کم شرحِ سود، صنعتوں کے لیے رعایتی بجلی اور برآمدی مراعات کی فوری منظوری کا وعدہ بھی شامل ہے۔
صنعتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات ناکافی ہیں۔ کنفیڈریشن آف انڈین ٹیکسٹائل انڈسٹری کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا: “ٹیکسٹائل انڈسٹری اکیلے 4.5 کروڑ افراد کو روزگار دیتی ہے۔ اگر فوری ریلیف نہ ملا تو بڑے پیمانے پر برطرفیاں ہوں گی۔”
چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار سب سے زیادہ خطرے میں ہیں۔ موسمی آرڈرز پر چلنے والے یہ ادارے اخراجات اور کم ہوتی طلب کے دباؤ میں بندش کے دہانے پر ہیں۔ کئی گروپس نے حکومت سے اجرتوں کے لیے ہنگامی معاونت کا مطالبہ کیا ہے تاکہ بے روزگاری کو روکا جا سکے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تجارتی تنازع بھارت-امریکہ تعلقات پر بھی منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ اگر بھارت نے جوابی محصولات عائد کیے تو صورتحال ایک بڑے تجارتی جنگ میں بدل سکتی ہے۔
مزدوروں کے لیے یہ حالات خاص طور پر تباہ کن ہیں۔ سورت کے ایک پاور لوم ورکر نے بتایا: “ہم تہوار کے موقع پر بونس کی امید کر رہے تھے، مگر اب مالک نے کہا ہے کہ وہ مکمل تنخواہ بھی نہیں دے سکے گا۔” اگر فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو ان محصولات کے اثرات طویل المدتی ہو سکتے ہیں اور برآمدی صنعتوں پر گہرا نشان چھوڑ جائیں گے۔
امریکی محصولات کا دباؤ: بھارت کی برآمدات پر سنگین اثرات
بھارتی برآمدات کے اعداد و شمار کے مطابق، پیٹرولیم مصنوعات کی کُل برآمدات میں بھارت کی امریکہ پر انحصار تقریباً 7 فیصد ہے، جب کہ مجموعی برآمدات کی مالیت 5.27 لاکھ کروڑ روپے ہے۔ اس میں نیدرلینڈز 22.01 فیصد کے ساتھ پہلے نمبر پر، متحدہ عرب امارات 10.62 فیصد کے ساتھ دوسرے، سنگاپور 8.34 فیصد کے ساتھ تیسرے، آسٹریلیا 7.40 فیصد کے ساتھ چوتھے، اور امریکہ 6.83 فیصد کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔
الیکٹرانک مصنوعات کی برآمدات میں بھارت کا امریکہ پر انحصار سب سے زیادہ ہے، یعنی 37.86 فیصد۔ اس شعبے میں متحدہ عرب امارات 9.46 فیصد کے ساتھ دوسرے، نیدرلینڈز 7.39 فیصد کے ساتھ تیسرے، برطانیہ 4.73 فیصد کے ساتھ چوتھے اور اٹلی 3.84 فیصد کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔ اس حصے میں بھارت کی کُل برآمدات 3.38 لاکھ کروڑ روپے کی ہیں۔
ادویات اور فارماسیوٹیکل شعبے میں بھارت کی برآمدات کا 34.58 فیصد حصہ امریکہ کو جاتا ہے۔ برطانیہ 3 فیصد، برازیل اور فرانس 2.25 فیصد فی کس، اور جنوبی امریکہ 1.87 فیصد پر ہیں۔ اس شعبے کی کُل برآمدات تقریباً 2.66 لاکھ کروڑ روپے ہیں۔
ہیرے اور زیورات کی برآمدات میں امریکہ کا حصہ 33.33 فیصد ہے۔ اس کے بعد متحدہ عرب امارات 26.05 فیصد، ہانگ کانگ 15.32 فیصد، بیلجیم 5.36 فیصد اور برطانیہ 3.06 فیصد پر ہیں۔ اس شعبے کی مجموعی برآمدات تقریباً 2.61 لاکھ کروڑ روپے ہیں۔
ٹرمپ کے محصولات کا اثر؟
سی این بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی زیادہ تر برآمدات زیورات، کپڑے، مشینری اور کیمیکلز کی شکل میں امریکہ کو جاتی ہیں۔ 50 فیصد ٹیکس سے یہ مصنوعات امریکی منڈی میں مہنگی ہو جائیں گی اور وہاں سے آرڈرز کم ہوں گے۔ آرڈرز میں کمی کی وجہ سے بھارتی کمپنیوں کو پیداوار گھٹانی پڑے گی، جس کے نتیجے میں برطرفیوں اور بیروزگاری میں اضافہ ہوگا۔
ماہرین کے مطابق اس کا دوسرا بڑا اثر بھارت کی سرکاری آمدنی اور جی ڈی پی پر ہوگا۔ برآمدات میں کمی سے آمدنی گھٹے گی اور جی ڈی پی کی ترقی کی شرح 0.2 فیصد سے 0.6 فیصد تک گر سکتی ہے۔
امریکہ پر انحصار کم کرنا بڑا چیلنج؟
بھارت کو یورپ، روس اور دیگر ملکوں کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے ہوں گے تاکہ امریکی انحصار کم ہو۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت کی وزارتِ تجارت نے 50 ملکوں کے لیے نئی برآمدی حکمتِ عملی تیار کی ہے، جس میں چین، مشرقِ وسطیٰ اور افریقی منڈیوں پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔
بھارت نے پہلے ہی آئس لینڈ، لختن شتائن، ناروے اور سوئٹزرلینڈ کے ساتھ تجارتی معاہدہ کیا ہے جو یکم اکتوبر سے نافذ ہوگا۔ برطانیہ کے ساتھ معاہدہ اپریل 2026 سے لاگو ہونے کا امکان ہے۔ اومان، چلی، پیرو، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور یورپی یونین کے ساتھ بھی بات چیت جاری ہے۔
اس کے علاوہ سمندری خوراک کے لیے بھارت روس، برطانیہ، یورپی یونین، ناروے، سوئٹزرلینڈ اور جنوبی کوریا کی منڈیوں پر توجہ دے رہا ہے، جبکہ ہیرے اور زیورات کے لیے ویتنام، تھائی لینڈ، ملیشیا اور افریقہ جیسے ملکوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔
مجموعی طور پر بھارت کی سب سے بڑی برآمد سگمنٹ مشینری کمپونینٹس ہیں جن کی مالیت 10 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ ہے، جن میں صرف امریکہ کا حصہ 1.68 لاکھ کروڑ ہے۔ لیکن چیلنج یہیں ختم نہیں ہوتا، کیونکہ ٹرمپ ان سب ملکوں پر بھی نظر رکھیں گے جن سے بھارت نے تجارتی معاہدے کیے ہیں یا کرنے جا رہا ہے۔
