عندلیب اختر
اگرچہ بین الاقوامی تجارتی صورتحال میں استحکام نظر آرہا ہے لیکن امریکہ کی نئی حکومت کے تحت اس کی پالیسیوں میں آنے والی ممکنہ تبدیلیوں کے باعث 2025 کی تجارتی صورتحال کے بارے میں غیریقینی پائی جاتی ہے۔امریکہ کی نئی حکومت کی جانب سے درآمدی اشیا پر بھاری محصول عائد ہونے کا امکان ہے جس سے ممکنہ طور پر بین الاقوامی ویلیو چین میں خلل آئے گا اور اہم تجارتی شراکت دار منفی طور سے متاثر ہوں گے۔ ایسے اقدامات سے جوابی کارروائیاں شروع ہونا اور ان کے وسیع تر اثرات بھی تشویش کا باعث ہیں۔
رواں سال بین الاقوامی تجارت کا حجم ریکارڈ 33 ٹریلین ڈالر رہے گا جبکہ آئندہ برس تجارتی مخاصمت، ارضی سیاسی تناؤ اور تبدیل ہوتی پالیسیوں کے باعث دنیا کا ممکنہ معاشی منظرنامہ زیادہ بہتر دکھائی نہیں دیتا۔اقوام متحدہ کے تجارتی و ترقیاتی ادارے (انکٹاڈ) کی بین الاقوامی تجارت کے حوالے سے تازہ ترین صورتحال پر مبنی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 3.3 فیصد سالانہ معاشی نمو کے سبب رواں سال تجارتی حجم 2023 کے مقابلے میں ایک ٹریلین ڈالر زیادہ رہے گا۔رواں سال خدمات کے شعبے میں سات فیصد تک ترقی ہوئی اور اس سے عالمگیر تجارتی حجم میں 500 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ اشیا کی تجارت میں 2 فیصد ترقی ریکارڈ کی گئی تاہم یہ 2022 کے مقابلے میں کم ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ بین الاقوامی تجارتی صورتحال سے استحکام کا اظہار ہوتا ہے لیکن امریکہ کی نئی حکومت کے تحت اس کی پالیسیوں میں آنے والی ممکنہ تبدیلیوں کے باعث 2025 کی تجارتی صورتحال کے بارے میں غیریقینی پائی جاتی ہے۔امریکہ کی نئی حکومت کی جانب سے درآمدی اشیا پر بھاری محصول عائد ہونے کا امکان ہے جس سے ممکنہ طور پر بین الاقوامی ویلیو چین میں خلل آئے گا اور اہم تجارتی شراکت دار منفی طور سے متاثر ہوں گے۔ ایسے اقدامات سے جوابی کارروائیاں شروع ہونا اور ان کے وسیع تر اثرات بھی تشویش کا باعث ہیں۔ ادارے نے خبردار کیا ہے کہ محصولات عائد کرنے کی دھمکیوں سے بھی غیریقینی پھیلتی ہے اور سرمایہ کاری و معاشی ترقی کو نقصان ہوتا ہے۔
امریکی پالیسیوں کے ممکنہ متاثرین
امریکہ کی تجارتی پالیسی میں ممکنہ تبدیلیوں سے وہ ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوں گے جن کے اس کے ساتھ وسیع تجارتی تعلقات ہیں۔ گزشتہ سال اشیا کی تجارت سے متعلق اعدادوشمار کو دیکھا جائے تو ان میں چین، بھارت، یورپی یونین اور ویت نام سرفہرست ہیں جن کی امریکہ کے ساتھ تجارتی قدر زائد (سرپلس) بالترتیب 280، 45، 205 اور 105 ارب ڈالر ہے۔ایسے دیگر ممالک میں کینیڈا (70 ارب ڈالر)، جاپان (70 ارب ڈالر)، میکسیکو (150 ارب ڈالر) اور جمہوریہ کوریا (50 ارب ڈالر) شامل ہیں جنہیں امریکہ سے آنے والی اشیا پر مقابلتاً کم محصول عائد کیے جانے یا اس کے ساتھ تجارتی معاہدوں کے باوجود بعض خدشات کا سامنا ہے۔
تیسری سہ ماہی کے نتائج
رپورٹ کے مطابق رواں سال کی تیسری سہ ماہی کے دوران ہونے والی تجارتی بہتری میں ترقی یافتہ معیشتوں کا کردار نمایاں رہا جس کا
سبب ان کی جانب سے مستحکم طلب اور سازگار کاروباری حالات تھے۔ترقی پذیر معیشتیں روایتاً بین الاقوامی تجارت کا مضبوط محرک رہی ہیں لیکن اس عرصہ میں انہیں درآمدی مشکلات کا سامنا رہا اور جنوبی دنیا کے ممالک کی باہمی تجارت میں بھی کمی واقع ہوئی جن کی اکثریت ترقی پذیر درجے میں آتی ہے۔ توانائی کے شعبے میں ان ممالک کی تجارت میں دو فیصد کمی واقع ہوئی جبکہ سال بھر مجموعی تجارت میں سات فیصد تک کمی دیکھی گئی۔ناصرف تیسری سہ ماہی بلکہ سال بھر ان ممالک کی دھاتوں کی تجارت میں بھی تین فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ موٹر گاڑیوں کے شعبے میں سال بھر چار فیصد ترقی ہوئی جبکہ جولائی تا ستمبر اس میں تین فیصد کمی دیکھنے کو ملی۔اطلاعاتی و مواصلاتی ٹیکنالوجی اور ملبوسات کی تجارت میں جولائی تا ستمبر بالترتیب 13 اور 14 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
علاقائی تجارتی صورتحال
ملکی سطح پر دیکھا جائے تو جاپان اشیا کی تجارت میں پانچ فیصد اضافے اور خدمات کی برآمدات میں سالانہ 13 فیصد ترقی کے ساتھ پہلے نمبر پر رہا۔ امریکہ میں اشیا کی درآمدات میں سال کی تیسری سہ ماہی اور پورے نو ماہ کے دوران چار فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا۔ خدمات کی تجارت کے ضمن میں یورپی یونین کی ترقی مستحکم رہی۔اس معاملے میں ترقی پذیر ممالک کو مشکلات کا سامنا رہا۔ سال کی تیسری سہ ماہی میں چین کی برآمدات دو فیصد تک کم ہو گئیں تاہم اس کے ہاں خدمات کی برآمدات کے شعبے میں سالانہ 9 فیصد تک اضافہ ہوا۔رواں سال کی تیسری سہ ماہی کے دوران انڈیا کی برآمدات میں بھی کمی آئی تاہم سالانہ بنیادوں پر اس میں قدرے بہتری دیکھی گئی۔ مشرقی ایشیا میں تجارتی حجم مستحکم رہا جہاں صرف برآمدات میں ایک فیصد ترقی ہوئی۔
بہتر تجارتی پالیسیوں کی ضرورت
‘انکٹاڈ’ کی سیکرٹری جنرل ریبیکا گرینسپین نے ترقی پذیر ممالک میں تجارتی تنوع کو بڑھانے اور اقتصادی خطرات میں کمی لانے کے لیے بھاری منافع دینے والے شعبوں میں سرمایہ کاری کی غرض سے بہتر پالیسیوں کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ تجارت پائیدار ترقی کی بنیاد ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کو آئندہ برس اپنی تجارت بہتر بنانے کے لیے غیریقینی حالات سے راستہ نکالنے، دوسروں پر انحصار کو کم کرنے اور عالمی منڈیوں میں اپنے روابط مضبوط بنانے کے لیے مربوط مدد کی ضرورت ہے۔