عندلیب اختر

دنیا ایک ایسے دور میں داخل ہو رہی ہے جہاں آبادی میں مسلسل اضافہ، شہری زندگی کی وسعت، اور بڑھتی ہوئی آمدنی خوراک کی عالمی طلب کو ایک نئی بلندیوں پر لے جا رہی ہے۔ گوشت، دودھ، مچھلی اور دیگر حیوانی غذاؤں کی مانگ میں بے مثال تیزی دیکھنے کو ملے گی۔ لیکن کیا صرف خوراک کی دستیابی ہی کافی ہے؟ نہیں، کیونکہ اس بڑھتی ہوئی کھپت کے پیچھے غذائیت کی ناہموار تقسیم اور ماحول پر پڑنے والے تباہ کن اثرات بھی اپنا سایہ گہرے کرتے جا رہے ہیں۔


اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت (FAO) اور ادارہ معاشی تعاون و ترقی (OECD) نے مشترکہ طور پر جاری کی گئی اپنی تازہ رپورٹ ”زرعی منظرنامہ 2025 تا 2034” میں اگلی دہائی کے زرعی رجحانات، مواقع اور خطرات کا مفصل تجزیہ پیش کیا ہے۔ یہ رپورٹ نہ صرف ترقی پذیر ممالک میں خوراک کی بڑھتی ہوئی طلب کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ ان چیلنجز کو بھی نمایاں کرتی ہے جو اس طلب کو پورا کرنے کے نتیجے میں سامنے آئیں گے۔


گوشت، دودھ اور مچھلی کی طلب میں زبردست اضافہ
رپورٹ کے مطابق، نچلے متوسط آمدنی والے ممالک میں گوشت، دودھ، مچھلی اور انڈوں جیسی حیوانی مصنوعات کی کھپت میں آئندہ 10 سالوں میں 24 فیصد تک اضافہ متوقع ہے، جو کہ عالمی اوسط سے خاصا زیادہ ہے۔ اس رجحان کا بنیادی سبب شہری آبادی میں اضافہ، صارفین کی غذائی ترجیحات میں تبدیلی، اور فی کس آمدنی میں اضافہ ہے۔رپورٹ بتاتی ہے کہ اس عرصے میں حیوانی غذاؤں کا فی کس استعمال چھ گنا بڑھنے کا امکان ہے۔ گوشت، مچھلی، دودھ اور اس سے بنی اشیاء کی طلب نہ صرف اقتصادی ترقی کی علامت سمجھی جائے گی بلکہ یہ غذائیت کے نئے مواقع بھی پیدا کرے گی۔


غذائیت کی غیر مساوی تقسیم — ایک بڑی رکاوٹ
اگرچہ کھپت میں اضافے سے غذائیت کی بہتری کی اُمیدیں بندھتی ہیں، لیکن رپورٹ خبردار کرتی ہے کہ نچلے متوسط آمدنی والے ممالک میں اب بھی یومیہ فی کس کیلوریز کی مقدار صرف 143 ہوگی — جو کہ ایک صحت بخش غذا کے عالمی معیار سے نصف سے بھی کم ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ غذائیت کا بحران محض پیداوار کا مسئلہ نہیں بلکہ رسائی کا مسئلہ بھی ہے۔FAO کے ڈائریکٹر جنرل کو ڈونگ یو نے زور دیا ہے کہ کم آمدنی والے ممالک میں بسنے والے افراد کو معیاری غذا تک رسائی دینے کے لیے عالمی برادری کو فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔

پیداوار میں اضافہ، مگر ماحولیاتی قیمت پر
رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگلی دہائی میں عالمی زرعی اور آبی پیداوار میں 14 فیصد اضافہ ہوگا، جس کا زیادہ تر کریڈٹ درمیانے آمدنی
والے ممالک کی بڑھتی ہوئی پیداواری صلاحیت کو دیا جا رہا ہے۔ گوشت، دودھ اور انڈوں کی پیداوار میں 17 فیصد جبکہ مویشیوں کی تعداد
میں 7 فیصد اضافے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔لیکن یہ ترقی مفت نہیں ملے گی۔ رپورٹ خبردار کرتی ہے کہ اگر موجودہ پالیسیاں برقرار رہیں، تو زرعی ترقی کے نتیجے میں 2034 تک گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج 6 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔ اگرچہ فی یونٹ اخراج میں کمی متوقع ہے، لیکن مجموعی اثرات ماحول پر گہرے ہوں گے۔


پائیداری کے لیے بڑے فیصلے درکار
رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ زرعی پیداوار کو پائیدار بنانے کے لیے فوری اور مربوط اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس میں منضبط کھیتی باڑی، مویشیوں کی خوراک میں بہتری، اور غذائیت سے بھرپور اجناس کی پیداوار شامل ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف ماحولیاتی اثرات کو محدود کریں گے بلکہ کم آمدنی والے طبقات کے لیے صحت بخش غذا کی دستیابی بھی ممکن بنائیں گے۔2034 تک تمام انسانوں کو بہتر غذا فراہم کرنے اور ماحول کو بچانے کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہوگی — نہ صرف ترقی پذیر ممالک میں، بلکہ ان مخصوص علاقوں میں بھی جہاں خوراک کی طلب اور غذائیت کے درمیان خلیج بہت وسیع ہے۔


عالمی تجارت کا مرکزی کردار
ایک اور اہم نکتہ جسے رپورٹ نے اجاگر کیا ہے، وہ عالمی تجارت کی ناگزیر اہمیت ہے۔ 2034 تک دنیا بھر میں استعمال ہونے والی خوراک کا 22 فیصد حصہ بین الاقوامی سرحدوں کے آر پار منتقل ہوگا، جس کا مطلب ہے کہ خوراک کی رسد اور طلب کو متوازن رکھنے میں بین الاقوامی تجارتی نظام ایک بنیادی ستون ہوگا۔اس مقصد کے لیے رپورٹ کثیرفریقی تعاون، کھلی تجارتی پالیسیوں، اور غذائی تحفظ پر مبنی تجارتی ضوابط کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔ OECD کے سیکرٹری جنرل میتھائیس کورمین کے مطابق، دنیا کے پاس نہ صرف بھوک ختم کرنے کے ذرائع موجود ہیں بلکہ عالمی غذائی تحفظ کو بہتر بنانے کی صلاحیت بھی موجود ہے — صرف ضرورت ہے اسے منصفانہ، مربوط اور پائیدار طریقے سے بروئے کار لانے کی۔


ترقی کی نئی سمت — متوازن، مساوی اور ماحول دوست
”زرعی منظرنامہ 2025 تا 2034” ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ خوراک کی فراوانی اور غذائیت کی فراہمی دو الگ مسائل ہیں۔ بڑھتی ہوئی پیداوار خوش آئند ہے، لیکن اگر اس کے ساتھ غذائی برابری اور ماحولیاتی تحفظ کو نظرانداز کیا گیا تو ترقی کا یہ سفر ہمیں مزید بحرانوں کی طرف دھکیل دے گا۔اگلی دہائی فیصلہ کن ثابت ہوگی — یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا دنیا واقعی ”سب کے لیے خوراک” کے اپنے وعدے کو پورا کر پاتی ہے یا نہیں۔

AMN