نئی دہلی ۔21دسمبر پروفیسر محمد
نجات اللہ صدیقی ایک مشہور ماہر معیشت، اسلامی اسکالر، اور بصیرت افروز شخصیت تھے جن کی اسلامی معیشت کے شعبے میں خدمات بے مثال ہیں۔ گورکھپور، ہندوستان میں پیدا ہونے والے صدیقی نے اپنی زندگی اسلامی اصولوں کو جدید معاشی نظریات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے وقف کی، اور ایسے فریم ورک تشکیل دیے جو مسلم دنیا کے سماجی و معاشی مسائل کو حل کرنے میں معاون ثابت ہوئے۔معروف تھنک ٹینک ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے زیر اہتمام اسی سال اپریل میں ان کی شخصیت اور اسلامی معیشت میں ان کی خدمات پر دوروزہ سمینار کا انعقادعمل میں آیاتھا جس میں ملک بھر سے اسکالر نے حصہ لیا اور اپنا مقالہ پیش کیا ۔ ان تمام مقالات کو جمع کرکے ایک کتابی شکل دی گئی ہے جسے مرتب کیا ہے ڈاکٹر جاوید خان نے ۔ آج ایک تقریب کے دوران ڈاکٹر اعظمی عمر( صدر آئی این سی ای آئی ایف یونیورسیٹی ملیشا) کے ہاتھوں اس کتاب کا رسم اجراءعمل میں آیا ۔ اس موقع پر انہوں نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ خطاب کرتے ہوئے کہاکہ آج کی دنیا، جہاں معاشی عدم مساوات اور اخلاقی بحران درپیش ہیں، صدیقی کانظریہ امید کی کرن پیش کرتا ہے۔ پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی کی وراثت اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلامی اصولوں کی آج کے مسائل کے حل میں کتنی گہری اہمیت ہے۔ بطور جدید اسلامی معیشت کے بانی، انہیں ان کی علمی خدمات اور ایک بہتر دنیا کی تشکیل کے لیے غیر متزلزل عزم کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔رسم اجراءکی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر اقبال احمد خان (سی ای او فجر کیپٹل گروپ دبئی) نے کہاکہ اے ایم یو میں تعلیم کے دوران پروفیسر نجات اللہ صدیقی سے ہمارے گہرے تعلقات تھے ، میرے والد پروفیسر افتخاررحمة اللہ سے مستقل ان کی ملاقات ہوتی تھی ۔ اسلامی معیشت کے حوالے سے طالب علمی کے زمانے میں ہی وہ سوچ رکھتے تھے ۔ ان کے ساتھ ہمیں کام کرنے کا بھی موقع ملا اور ان کی فکر ہم نے عملی جامہ پہنایا ۔1975 میں جب اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کیا تو بہت سارے دانشوران کو جیل جانا پڑا اس میں پروفیسر نجات اللہ صدیقی بھی شامل تھے جس کے خلاف میرے والد نے بہت مضبوطی سے آواز اٹھائی تھی ۔پروفیسر احمد اللہ صدیقی نے امریکہ سے کانفرنس میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ پروفیسر نجات اللہ صدیقی ہمہ جہت صلاحیت کے حامل تھے لیکن ان کا تخصص معیشت میں تھا ۔ میں نے ان کے ان کے گھر پر ہونے والے ایک مباحثہ میں شرکت کی جہاں انہوں نے متعدد مسائل پر گفتگو جس میں خصوصی تذکر ہ اسلامی معیشت کا کیاگیا ۔ ان کا ایک اہم کارنامہ اسٹوڈینٹس کیلئے علی گڑھ میں اکنامک ریسرچ سینٹر کے قیام کا مطالبہ تھا ۔ میرے دوست ڈاکٹر منظور عالم مبارکباد کے حقدار ہیں جنہوں نے دنیابھر کے دانشوران کو اس موضوع پر سوچنے اور غوروفکر کرنے کی دعوت دی اور انہوں نے پروفیسر نجات اللہ صدیقی کے افکار پر سمینار بھی کرایا ۔پروفیسر عبد العظیم اصلاحی نے کہاکہ معیشت کے موضوع پر میں نے پروفیسر نجات اللہ صدیقی کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کیاہے ، اسلام کے بیکنگ نظام پر ان کی گہری پکڑ تھی اور غیر سودی معاشی نظام کیلئے ان کی جدوجہد کی آج کے دور میں بہت زیادہ اہمیت اور ضرورت ہے ۔پروفیسر افضل وانی چیرمین آئی او ایس نے اپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ پروفیسر صدیقی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) سے اپنی تعلیم حاصل کی، جہاں انہوں نے اقتصادیات اور عربی میں ڈگریاں حاصل کیں۔ ان کی علمی قابلیت نے انہیں اسلامی فقہ اور جدید معاشی نظریات کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کے قابل بنایا۔ بعد ازاں انہوں نے کئی معزز اداروں میں پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں، جن میں جدہ کی کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی شامل ہے۔پروفیسر صدیقی جدید اسلامی معیشت کے بانیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کی تصنیفات، جن میں کتابیں، تحقیقی مقالے اور مضامین شامل ہیں، نے اس میدان کے لیے ایک مضبوط نظریاتی بنیاد فراہم کی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ ہمارے پاس پورا غیر سودی معاشی نظام ہے جس میں سبھی کو حصہ داری ملے گی ، دنیا سے غربت کا خاتمہ ہوگا ، تجارت اور سرمایہ پر چند لوگوں کا قبضہ نہیں ہوگا لیکن ضرورت ہے اس کے نفاذ کی۔ڈاکٹر آفتاب عالم نے اپنے خطاب میں کہاکہ پروفیسر نجات صدیقی نے معیشت میں اسلامی نظام کو پوری قوت کے ساتھ پیش کیا اور بتایاکہ کس طرح اسلام کا معاشی نظام وقت اور دنیا کی ضرورت ہے ، انہوں نے سود ی نظام کے نقصانات کو پوری مضبوطی کے ساتھ پیش کیا ۔ پروفیسر نجات اللہ صدیقی کے بیٹے ڈاکٹر ارشد صدیقی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور آئی او ایس کا شکریہ ادا کیا ۔آئی او ایس کے جنرل سکریٹری محمد عالم نے تمام مہمانوں کا استقبال کیا اور آئی او ایس کا تعارف کرایا ۔ پروفیسر حسینہ حاشیہ نے نظامت کا فریضہ انجام دیا قبل ازیں قرآن کریم کی تلاوت سے پروگرام کا آغاز ہوا ۔واضح رہے کہ اس کتاب میں پروفیسر نجات اللہ صدیقی کے نظریات کو سامنے رکھتے ہوئے سود سے پاک بینکاری،معاشی انصاف،اسلامی تجارتی اخلاقیات،ریاست کا معاشی ترقی میں کرداراور اس طرح کے موضوعات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے ۔