’سیو وقف مہم‘ پوری قوت کے ساتھ جاری رہے گی

اسٹاف رپورٹر | نئی دہلی
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے سپریم کورٹ آف انڈیا کے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 سے متعلق عبوری فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’’نامکمل اور غیر تسلی بخش‘‘ قرار دیا ہے۔
بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر ایس۔ کیو۔ آر۔ الیاس نے ایک بیان میں کہا کہ اگرچہ عدالتِ عظمیٰ نے ایکٹ کی بعض متنازع دفعات پر حکم امتناعی دیا ہے، لیکن مسلم برادری، مسلم پرسنل لاء بورڈ اور انصاف کے خواہاں شہریوں کو توقع تھی کہ ان تمام دفعات پر روک لگائی جائے گی جو آئین کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہیں۔ انہوں نے کہا: ’’عدالت نے جزوی ریلیف دیا ہے لیکن وسیع تر آئینی خدشات پر غور نہیں کیا گیا، جس سے ہم مایوس ہیں۔‘‘
ڈاکٹر الیاس نے مزید کہا کہ بہت سی ایسی دفعات، جو بظاہر ہی برادری کے مفاد کے خلاف اور من مانے طریقے پر مبنی ہیں، انہیں اس مرحلے پر نہیں روکا گیا۔ ’’حتمی فیصلہ ابھی باقی ہے، لیکن سرکاری افسران کے جانبدارانہ رویے کے پیشِ نظر اندیشہ ہے کہ ان دفعات کا غلط استعمال کیا جائے گا۔‘‘
بورڈ کا مؤقف ہے کہ یہ ترمیمی ایکٹ دراصل وقف جائیدادوں کو کمزور کرنے اور ہتھیانے کی ایک سوچی سمجھی کوشش ہے۔ اس لیے بورڈ نے مطالبہ کیا ہے کہ وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کو مکمل طور پر منسوخ کر کے سابقہ وقف ایکٹ کو بحال کیا جائے۔
سپریم کورٹ کے عبوری حکم سے ملنے والی راحت
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں چند اہم پہلوؤں پر مسلم برادری کو عبوری ریلیف فراہم کیا ہے
جائیداد کے حقوق کا تحفظ: عدالت نے حکم دیا کہ وقف جائیدادوں کو کسی بھی صورت بے دخل نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی سرکاری ریکارڈ میں کوئی تبدیلی کی جائے گی جب تک کہ حتمی فیصلہ صادر نہ ہو جائے۔ عدالت نے اس دفعہ پر بھی روک لگا دی جس کے تحت کسی سرکاری افسر کی رپورٹ پر وقف کی ملکیت کا انحصار کیا جاتا تھا۔
من مانے اختیارات کی روک تھام: عدالت نے دفعہ تین سی کو معطل کر دیا اور یہ واضح کیا کہ کوئی سرکاری افسر یکطرفہ طور پر یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ کون وقف قائم کرنے کا اہل ہے۔ اسی کے ساتھ اس شرط پر بھی روک لگا دی گئی جس کے مطابق کسی جائیداد کو تفتیش کے دوران وقف ماننے سے خارج کیا جا سکتا تھا۔ اب ٹریبونل کے حتمی فیصلے تک نہ کوئی وقف بے دخل کیا جائے گا اور نہ ہی اس کے ریکارڈ میں کوئی ردّ و بدل کیا جائے گا۔
اختیارات کی علیحدگی: عدالت نے زور دے کر کہا کہ محصولات کے افسر کو کسی جائیداد کی ملکیت طے کرنے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ اختیارات کی علیحدگی کے اصول کے منافی ہے۔
غیر مسلم اراکین کی شمولیت: مذہبی معاملات میں بیرونی مداخلت کے خدشات کو دیکھتے ہوئے عدالت نے یہ ہدایت دی کہ مرکزی وقف کونسل میں غیر مسلم اراکین کی تعداد بائیس میں سے چار سے زیادہ نہیں ہوگی اور ریاستی وقف بورڈز میں غیر مسلم اراکین گیارہ میں سے تین سے زیادہ نہیں ہوں گے۔
پانچ سال سے مسلمان ہونے کی شرط: عدالت نے اس شق پر بھی روک لگا دی جس میں کہا گیا تھا کہ وقف قائم کرنے والا شخص کم از کم پانچ برس سے مسلمان ہونے کا ثبوت دے۔ یہ حکم اس وقت تک نافذ العمل رہے گا جب تک کہ حکومت اس سلسلے میں قواعد و ضوابط وضع نہیں کرتی۔
سیو وقف مہم
ڈاکٹر الیاس نے اعلان کیا کہ بورڈ کی ’سیو وقف مہم‘ پوری قوت کے ساتھ جاری رہے گی۔ اس مہم کے دوسرے مرحلے کا آغاز یکم ستمبر 2025 سے ہوچکا ہے جس کے تحت دھرنے، مظاہرے، وقف مارچ، یادداشتیں، قائدین کی گرفتاریاں، گول میز اجلاس، بین المذاہب کانفرنسیں اور پریس کانفرنسیں منعقد کی جا رہی ہیں۔ یہ احتجاجی سلسلہ 16 نومبر 2025 کو دہلی کے رام لیلا میدان میں ایک بڑے عوامی اجتماع پر منتج ہوگا، جس میں ملک بھر سے عوام شرکت کریں گے۔
