Last Updated on December 28, 2025 12:55 am by INDIAN AWAAZ

عندلیب اختر
عالمی منڈی میں چاندی کی قیمت حالیہ مہینوں میں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، جس نے سرمایہ کاروں، صنعت کاروں اور عام خریداروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی ہے۔ اگرچہ قدر محفوظ رکھنے کے لیے سونا اب بھی سرمایہ کاروں کی پہلی پسند ہے، مگر موجودہ حالات میں چاندی تیزی سے ایک اہم متبادل کے طور پر ابھر رہی ہے۔ بھارت میں چاندی کی قیمتوں نے 2025 میں غیر معمولی اضافہ دیکھا ہے۔ ملٹی کموڈیٹی ایکسچینج (MCX) پر نرخ 2,40,000 فی کلوگرام سے اوپر جا پہنچے ہیں، جو سونے کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیز رفتار اضافہ ہے۔ عالمی سطح پر بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ نیویارک اور لندن کی مارکیٹوں میں چاندی کی قیمتیں 2023 کے آخر میں 22 ڈالر فی اونس سے بڑھ کر 2025 میں 65 ڈالر فی اونس تک جا پہنچی ہیں۔ یہ اضافہ عالمی سرمایہ کاروں کے اعتماد اور سپلائی کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔


ماہرین کا کہنا ہے کہ 2026 میں بھی چاندی کی مانگ برقرار رہے گی، خاص طور پر صنعتی استعمال کے سبب۔ تاہم، عالمی مالیاتی پالیسی میں سختی یا بھارت میں سبسڈی کی تبدیلی اس رجحان کو متاثر کر سکتی ہے۔چاندی کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ بھارت کے لیے ایک دوہرا چیلنج ہے: ایک طرف یہ سرمایہ کاروں کے لیے منافع بخش موقع ہے، دوسری طرف صارفین اور صنعتوں کے لیے مہنگائی کا دباؤ۔ عالمی منڈی میں بھی چاندی کی تیزی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ دھات آنے والے برسوں میں معیشت اور توانائی کے مستقبل میں مرکزی کردار ادا کرے گی.


قیمت بڑھنے کی بڑی وجوہات
ماہرین کے مطابق اس اضافے کی ایک وجہ امریکی ڈالر کی کمزوری اور فیڈرل ریزرو کی جانب سے شرح سود میں ممکنہ کمی کی توقعات ہیں، مگر اصل اور بنیادی وجہ عالمی رسد میں کمی ہے۔لاطینی امریکہ، جو دنیا کی نصف سے زیادہ چاندی پیدا کرتا ہے، وہاں کان کنی کو سنگین چیلنجز درپیش ہیں۔ میکسیکو، جو عالمی پیداوار کا تقریباً 25 فیصد فراہم کرتا ہے، وہاں حالیہ برسوں میں پیداوار میں نمایاں کمی آئی ہے۔ شمالی ریاست چیہواہوا کی بڑی کان سان جولیان 2027 تک اپنی پیداواری عمر کے اختتام کے قریب ہے۔اسی طرح پیرو، بولیویا اور چلی میں بھی ذخائر کے کم ہوتے معیار کے باعث لاگت بڑھ رہی ہے۔ سیاسی عدم استحکام، سخت ضوابط اور نئی سرمایہ کاری میں کمی نے صورتحال کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ لندن میں قائم ادارے گلوبل ڈیٹا کے مطابق اگر نئی کانیں دریافت نہ ہوئیں تو اس دہائی کے آخر تک پیداوار جمود یا کمی کا شکار رہے گی۔ دی سلور انسٹی ٹیوٹ کے مطابق عالمی مارکیٹ مسلسل پانچویں سال بھی خسارے میں ہے اور رواں سال طلب رسد سے تقریباً 9 کروڑ 50 لاکھ اونس (یعنی لگ بھگ 30 لاکھ کلوگرام) زیادہ رہنے کی توقع ہے۔


چاندی کی مانگ کیوں بڑھ رہی ہے؟
چاندی اب صرف زیورات یا سرمایہ کاری تک محدود نہیں رہی، بلکہ جدید ٹیکنالوجی اور صاف توانائی کے شعبوں میں یہ ناگزیر بنتی جا رہی ہے۔سولر پینلز میں بجلی کی ترسیل کے لیے چاندی کا پیسٹ استعمال ہوتا ہے۔ ہندوستان میں حکومت کے قابلِ تجدید توانائی کے بڑے اہداف، خاص طور پر 2030 تک 500 گیگاواٹ رینیوبل صلاحیت حاصل کرنے کے منصوبے، چاندی کی مانگ کو مزید بڑھا سکتے ہیں۔
الیکٹرک گاڑیوں میں روایتی گاڑیوں کے مقابلے میں تقریباً دو تہائی زیادہ چاندی استعمال ہوتی ہے۔ بھارت میں ای وی پالیسیوں اور بیٹری مینوفیکچرنگ پر زور سے آئندہ برسوں میں اس دھات کی کھپت میں اضافہ متوقع ہے۔ڈیٹا سینٹرز اور مصنوعی ذہانت کے بڑھتے استعمال کے باعث بھی چاندی کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے، کیونکہ یہ بہترین برقی اور حرارتی موصلیت رکھتی ہے اور زیادہ حرارت کو سنبھالنے میں مدد دیتی ہے۔اگرچہ سکوں اور سلاخوں کی مانگ میں کچھ کمی آئی ہے، مگر زیورات، الیکٹرونکس، طبی آلات اور صارفین کی مصنوعات میں استعمال مضبوط ہے۔ ہندوستان، جو دنیا کے بڑے زیورات کے بازاروں میں شامل ہے، یہاں شادی بیاہ اور تہواروں میں چاندی کی کھپت روایتی طور پر زیادہ رہتی ہے۔


ہندوستان میں چاندی: روایت اور سرمایہ کاری
بھارت میں چاندی کو صدیوں سے دولت، پاکیزگی اور خوشحالی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ دیوالی، دھنتیرس اور شادیوں پر چاندی کے سکے اور زیورات خریدنا عام روایت ہے۔ دیہی علاقوں میں آج بھی لوگ چاندی کو محفوظ سرمایہ سمجھتے ہیں کیونکہ یہ سونے کے مقابلے میں زیادہ قابلِ رسائی ہے۔حالیہ برسوں میں چاندی کے ای ٹی ایف اور ڈیجیٹل سرمایہ کاری کے ذرائع بھی بھارت میں مقبول ہو رہے ہیں، جس سے شہری سرمایہ کاروں کی شرکت بڑھی ہے۔


بطور کرنسی چاندی کا تاریخی کردار
ہزاروں برس تک چاندی بطور کرنسی استعمال ہوتی رہی۔ قدیم تہذیبوں سے لے کر اسپین کے مشہور ’پیِسز آف ایٹ‘ سکوں تک، یہ دنیا کی پہلی عالمی تجارتی کرنسی بنی۔ انیسویں صدی میں امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی ممالک نے اپنی کرنسیوں کو سونے اور چاندی دونوں سے جوڑا۔
بیسویں صدی میں اگرچہ چاندی کا مالی کردار کم ہو گیا، مگر افراطِ زر اور مالی عدم استحکام کے خلاف تحفظ کے طور پر اس کی اہمیت آج بھی برقرار ہے۔


اگرچہ بعض ماہرین قلیل مدت میں قیمت میں اتار چڑھاؤ کا خدشہ ظاہر کرتے ہیں، مگر مجموعی طور پر رجحان مثبت دکھائی دیتا ہے۔ رسد میں کمی اور صنعتی مانگ میں مسلسل اضافہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آنے والے برسوں میں بھی چاندی عالمی اور ہندوستانی منڈی میں ایک اہم کردار ادا کرتی رہے گی۔یوں، چاندی کی موجودہ تیزی محض قیاس آرائی نہیں بلکہ عالمی معاشی تبدیلیوں، ٹیکنالوجی کی ترقی اور توانائی کے نئے دور کی عکاس ہے — اور یہی وجہ ہے کہ اس کی قیمت آج آسمان کو چھو رہی ہے۔


سرمایہ کاروں اور صارفین پر اثرات

  • دیہی خریدار: روایتی طور پر چاندی کے زیورات خریدنے والے دیہی صارفین اب بلند قیمتوں کی وجہ سے محتاط ہو گئے ہیں۔
  • شہری سرمایہ کار: شہری علاقوں میں سرمایہ کار چاندی کو ایک منافع بخش اثاثہ سمجھ کر خرید رہے ہیں، کیونکہ اس نے سونے اور حصص بازار دونوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
  • صنعتی شعبہ: الیکٹرانکس اور شمسی توانائی کے شعبے میں لاگت بڑھنے سے کمپنیوں کے منافع پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔