ٹی این نائنن
کیا یہ پاکستان کے طویل المدتی زوال کا ایک اہم لمحہ ہے؟ پاکستان انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی ٹیم کے ساتھ 10 دن کی تفصیلی بات چیت کے بعد، مذاکرات کار اس معاہدے کے قریب ہیں کہ قرضہ جاری کرنے کے بعد اس کی بحران زدہ معیشت کو کیسے منظم کیا جائے۔تاہم، حتمی معاہدہ ہونا ابھی باقی ہے اور جیسا کہ آئی ایم ایف کے بیان میں کہا گیا ہے، ہمیں مزید تفصیلات کے لیے مزید مذاکرات کا انتظار کرنا چاہیے۔ ابھی تک آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔پاکستان کو قرضہ ملے یا نہ ملے، یہ ملک بہت مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ یا تو یہ قرض ادا نہیں کرے گا اور سری لنکا جیسے مشکل حالات کا شکار ہو جائے گا یا پھر اسے ایسے کفایت شعاری کے اقدامات اپنانے ہوں گے جن کے بارے میں پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ یہ ‘ تصور سے باہر’۔
مثال کے طور پر: مہنگا ایندھن اور بجلی کے بلوں میں اضافہ، زیادہ ٹیکس، سبسڈی میں کٹوتی اور اعلی مہنگائی (مہنگائی اس وقت 27 فیصد پر ہے) جیسے اقدامات وہاں کے معیار زندگی پر شدید اثر ڈالیں گے۔ دو فیصلے پہلے ہی کیے جا چکے ہیں: کرنسی راتوں رات تقریباً 15 فیصد کھو چکی ہے اور گزشتہ سال سے 35 فیصد تک گر چکی ہے، جبکہ ایندھن کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی عوام اپنے مستقبل کے لیے اس طرح کے پیکج کو قبول کریں گے؟ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو انہیں بین الاقوامی سطح پر ڈیفالٹ آف لیبلٹی سمیت کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس طرح کے سخت اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان مالی طور پر ایک ایسے موڑ پر پہنچ گیا ہے جہاں آگے بڑھنے کا راستہ تعطل کا شکار ہے۔ اب تک وہ بڑی مہارت سے ساہوکاروں سے وعدے کر کے قرض حاصل کرتا رہا ہے جو بالآخر ٹوٹ گیا۔ لیکن وہ چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کے تحت چین کے ساتھ مناسب پراجیکٹ کا ٹھیکہ حاصل نہیں کر سکا۔خیال کیا جاتا تھا کہ اس منصوبے سے پاکستان کو بجلی کی قلت سے نجات ملے گی اور بہتر ٹرانسپورٹ اور بندرگاہ کے بنیادی ڈھانچے کے ذریعے تیز رفتار اقتصادی ترقی کو یقینی بنایا جائے گا۔ سامنے آنے والی معلومات کے مطابق پلانٹ کے آلات اور آپریشن کے لیے کوئلہ درآمد کیا گیا تھا۔ قرضوں کے نرخ بھی بہت مہنگے تھے۔جن چینی کمپنیوں نے پلانٹ لگائے تھے اور اب پاور سٹیشن چلا رہے ہیں انہیں رقم ادا نہیں کی گئی۔ حال ہی میں انہوں نے آپریشن بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔ دریں اثناء پاکستان میں بجلی کا بحران بدستور جاری ہے۔
اگر آئی ایم ایف رقم دینے پر راضی ہوتا ہے تو چین اور کچھ خلیجی ممالک بھی ایسا ہی کریں گے۔ ان سب نے بارہا پاکستان کو معاشی بحران سے نکالا ہے لیکن پاکستان کی مانگ میں کبھی کمی نہیں آئی۔ ایسے میں ان کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی۔ جیسا کہ ہم نے سری لنکا کے معاملے میں دیکھا ہے، چین، قرض دہندہ کے طور پر، قرض کی شرائط پر دوبارہ گفت و شنید کرنے پر بہت سخت موقف اختیار کرتا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا قرض صرف عارضی ریلیف کے طور پر کام کرے گا یا طویل مدتی حل فراہم کرے گا؟ کہا جا سکتا ہے کہ آئی ایم ایف قرض کی شرائط طے کرتے وقت دونوں باتوں کا خیال رکھے گا۔مسئلہ کی جڑ یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت ٹھیک نہیں ہے۔ جس وقت درآمدات پر پابندی لگائی گئی، وہ برآمدات کے مقابلے میں دگنی ہو چکی تھیں۔ یہ جزوی طور پر سوویت کے زیر قبضہ افغانستان سے نمٹنے کے لیے قرضوں اور امریکی امداد اور فوجی ادائیگیوں کے ذریعے اور بعد میں طالبان کے خلاف امریکی مہم کے دوران پورا کیا گیا۔پاکستان کے دوہرے معیار کی وجہ سے امریکہ بوکھلا گیا تو اس نے چین سے دوستی بڑھا دی۔ کسی نہ کسی طرح، پاکستان کو کسی بھی ملک پر انحصار کرنے میں راحت محسوس ہوئی۔ اب لگتا ہے یہ سلسلہ ختم ہونے والا ہے۔
اگر پاکستان کو نئی شروعات کرنی ہے تو اسے بہت آگے جانا ہوگا۔ کمزور سماجی و اقتصادی حالات کی وجہ سے یہ انسانی ترقی کے اشاریہ میں بھی
کم ہے۔ بنگلہ دیش اور بھارت اس میدان میں درمیانے درجے پر ہیں۔فی کس آمدنی کے لحاظ سے یہ ہندوستان کی تقریباً دو تہائی ہے اور جی ڈی پی میں اس کی ٹیکس آمدنی ہندوستان کے 70 فیصد سے بھی کم ہے۔ ایسی صورت حال میں وہاں کی حکومت بنیادی کام کیسے کر پائے گی، خاص طور پر جب ٹیکسوں سے آنے والی رقم کا بڑا حصہ فوج کو جاتا ہے۔کمزور صنعتی بنیاد اور غیر فعال سیاست اور غیر پیداواری قومی سلامتی کے ایجنڈے کی وجہ سے پاکستان بین الاقوامی سطح پر درد سر بن سکتا ہے۔ اس کے باوجود جب بھارت اپنے مغرب کی طرف دیکھے گا تو اسے ایک کمزور پاکستان اپنی مشکلات میں الجھا ہوا نظر آئے گا۔ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ہندوستان کے لیے کم مشکلات پیدا کرے گا۔ (بشکریہ بزنس اسٹنڈرڈ)