اینکریج، الاسکا، 16 اگست 2025 — امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان جمعہ کو الاسکا کے شہر اینکریج میں ہونے والی سربراہی ملاقات دنیا بھر کی توجہ کا مرکز رہی، لیکن اس ملاقات کا اختتام کسی ٹھوس معاہدے یا عملی پیش رفت کے بجائے محض تصویری مناظر اور عمومی بیانات پر ہوا۔ یوکرین، جو اس بات چیت کا سب سے اہم موضوع تصور کیا جا رہا تھا، ایک بار پھر مرکزی بحث سے باہر رہا۔

بیانات میں شرافت، حقیقت میں فاصلہ

سربراہی ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے کہا، “ہماری ملاقات اچھی رہی، ہم ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں، اور اب وقت آ گیا ہے کہ ہم امن کی طرف بڑھیں۔”

صدر پیوٹن نے بھی ٹرمپ کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ روس اور امریکہ کے تعلقات میں استحکام ضروری ہے، اور بات چیت ہی مسائل کے حل کا راستہ ہے۔

تاہم ان بیانات کے باوجود، یوکرین کے مسئلے پر کوئی عملی پیش رفت نہ ہو سکی اور نہ ہی جنگ بندی، علاقائی خودمختاری یا روسی انخلا پر کوئی اتفاقِ رائے سامنے آیا۔

یوکرین غائب، کوئی حل نہیں

اس بات کی توقع تھی کہ اگر ٹرمپ اور پیوٹن کی پہلی ملاقات خوشگوار رہتی تو یوکرینی صدر وولودومیر زیلنسکی کو بعد ازاں شامل کیا جاتا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وائٹ ہاؤس نے بعد میں واضح کیا کہ “اس مرحلے میں یوکرین کو شامل نہیں کیا گیا۔”

ذرائع کے مطابق ملاقات میں جوہری ہتھیاروں پر کنٹرول، توانائی کی منڈیاں، اور سائبر سیکیورٹی جیسے موضوعات پر بھی گفتگو ہوئی، لیکن یوکرین کی جنگ پر بات صرف عمومی سطح تک محدود رہی۔

کییف کی مایوسی، یورپ کا خدشہ

یوکرینی حکومت نے اس ملاقات پر سخت مایوسی کا اظہار کیا۔ وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا: “یوکرین کے بارے میں کوئی فیصلہ یوکرین کے بغیر ناقابلِ قبول ہے۔”

صدر زیلنسکی نے بھی کہا کہ اگر امن قائم کرنا ہے تو وہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی مکمل ضمانت دی جائے۔

یورپی ممالک جیسے جرمنی اور فرانس نے بھی متنبہ کیا کہ کسی خفیہ معاہدے یا یکطرفہ فیصلے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

سیاسی منظر یا سفارتی موقع؟

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات ایک سفارتی پیش رفت سے زیادہ سیاسی منظرکشی تھی۔ سابق امریکی قومی سلامتی مشیر ایچ آر مک ماسٹر نے کہا، “یہ سفارت کاری سے زیادہ ایک شو تھا، جس میں عملی اقدامات کی کمی نمایاں رہی۔”

اگرچہ ٹرمپ کے ساتھ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف موجود تھے، لیکن ان کی شمولیت سے بھی کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکلا۔

آگے کیا؟

نہ کوئی مشترکہ اعلامیہ، نہ آئندہ ملاقات کی تاریخ، اور نہ ہی یوکرین بحران پر کوئی قابلِ عمل روڈ میپ۔ اینکریج سربراہی اجلاس نے زیادہ سوالات چھوڑے ہیں، جوابات کم۔

یوکرین بدستور جنگ کی لپیٹ میں ہے، اور دنیا کی نظریں اب اگلے ممکنہ قدم پر لگی ہوئی ہیں — امید باقی ہے، لیکن اعتماد متزلزل ہوتا جا رہا ہے۔