معروف تھنک ٹینک ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز نئی دہلی کے زیر اہتمام آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سابق صدرِ اور ندوۃ العلماء لکھنؤ کے سابق ناظم حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی شخصیت پر دور روزہ سیمینار کا انعقاد ہورہاہے، افتتاحی اجلاس میں ملک کےسرکردہ دانشوروں نے شرکت کی ، اس موقع پر معروف دانشور پروفیسر اختر الواسع نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ مولانا رابع حسنی ندوی حضرت مولانا علی میاں کے سچے علمی اور روحانی جانشین تھے۔ تحریک بالا کوٹ سے شروع ہوئی تحریک کو وہ آگے بڑھا رہے تھے، علم سے وابستگی اپنی جگہ لیکن دائرے کے لوگوں میں وہ نمایاں تھا، استغنا توکل اور استقلال کا پیکر تھے، مولانا بلال صاحب بھی انہی اوصاف کا نمونہ ہیں، میری زندگی کو جن کتابوں نے روشنی بخشی ہے اس میں مولانا رابع حسنی ندوی کی کتابیں بھی شامل ہے جو عرب کے جغرافیہ پر تھی۔ ندوۃ ان مدارس میں ہے جس نے قدیم اور جدید کو ایک دوسرے سے قریب لانے کی کوشش کی ہے۔ آل مسلم پرسنل لاء بورڈ کا قیام ندوہ میں ہوا، ندوہ کی علمی اور ملی خدمات بھی غیر معمولی ہے۔ پروفیسر اختر الواسع نے مزید کہاکہ مولانا رابع صاحب کی امیدیں قلیل اور مقاصد جلیل تھے۔ تصوف کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا لیکن کبھی اس کی نمائش نہیں کی جبکہ ہمارے یہاں تصوف اور عرفان کو لوگوں نے کاروبار بنا رکھاہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی صدارت غیر معمولی ہے مجھے بھروسہ تھا کہ جب تک وہ صدر ہیں ملت کا سودا نہیں ہوگا ہر چند کہ میرا کچھ اختلاف بھی تھا ۔
مولانا بلال حسنی ندوی ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ نے اپنے خطاب میں کہا مولانا رابع اپنی بہت ساری خوبیوں اور خصوصیات کے ساتھ باکمال اور مقبول ترین مدرس بھی تھے، 1949 سے انہوں نے پڑھانا شروع کیا اور اخیر وقت تک درس دیتے رہے، کبھی ناغہ نہیں ہوا، ان کا قرآن مجید کا درس بہت ممتاز ہوتا تھا۔ مولانا نے زیادہ تر زبان وادب کا موضوع پڑھایا ، اخیر کے دنوں میں انہوں نے بخاری شریف کا درس دینا شروع کیا اور اس میں منہمک ہوگئے تھے۔
اخری نماز ظہر کی بہت اہتمام کے ساتھ پڑھی اور عصر سے پہلے ان کی وفات ہوگئی ۔ انہوں نے مزید کہاکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر کی ذمہ داری قبول کرنے سے انہوں نے انکار کردیا جس کے بعد بورڈ کے ذمہ داروں نے کہا کہ اگر کچھ اختلاف ہوگا تو آپ ذمہ دار ہوں گے اس کے بعد مولانا نے بورڈ کی ذمہ داری قبول کی۔ مولانا کبھی خود کو کسی چیز کا اہل نہیں سمجھتے تھے۔
مولانا علمی میاں ندوی کی وفات کے بعد مولانا رابع صاحب کا طلوع ہوا جس طرح آفتاب کے غروب کے بعد چاند نمودار ہوتا ہے ۔
مولانا آیت اللہ شاہ قادری مجیبی نے اپنے پیغام میں کہا کہ مولانا رابع موجودہ دور کے رجال ساز کی اہم کڑی اور سبھی خوبیوں کے حامل تھے، ملی خدمات میں ان کا خاندان برسوں سے مصروف ہے۔ ان کی حیات کے قائدانہ اور علمی نقوش مشعل راہ ثابت ہوں گے۔ مولانا رابع کی زندگی مولانا علی میاں ندوی کی علمی و عملی زندگی کی نمائندگی تھی
مولانا نے بہت ساری سازشوں سے ادارہ کو محفوظ رکھا، میرا ان سے گہرا تعلق تھا، ملک آج جن حالات سے دو چار ہے مولانا نے اس کا احساس بہت پہلے کرلیا تھا
مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے اپنے خطاب میں کہا کہ
مولانا امت کو سجھاؤ دیتے تھے، وہ بے مثال قائد اور رہنما تھے ، مجھے بارہا ان سے ملاقات کا موقع ملا
سابق مرکزی وزیر کے رحمن خان نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ مولانا رابع حسنی ندوی نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی قیادت جس ذمہ داری کے ساتھ نبھائی وہ بے مثال اور قابلِ قدر ہے۔ وہ سنجیدہ دو اندیش اور اتحاد کے علمبردار تھے، ان کا ملی، علمی سیاسی اور سماجی شعور بےحد اہم ہے جسے مشعل راہ بنانے کی ضرورت ہے۔ قبل ازیں قرآن کی تلاوت سے سمینار کا آغاز ہوا، افتتاحی اجلاس کی صدارت نظامت مولانا شاہ اجمل فاروق ندوی نے کی۔