بمباری میں شمالی غزہ کا ایک علاقہ مکمل طور پر زمین بوس ہو چکا ہے۔
© UNOCHAبمباری میں شمالی غزہ کا ایک علاقہ مکمل طور پر زمین بوس ہو چکا ہے۔


عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ غزہ کی جنگ میں ہسپتالوں، طبی عملے اور وہاں پناہ گزین لوگوں پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔ تنازع شروع ہونے کے بعد طبی مراکز میں 645 افراد ہلاک اور 818 زخمی ہو چکے ہیں۔

ادارے کے ترجمان طارق جاساروک کے مطابق 7 اکتوبر کے بعد غزہ میں طبی سہولیات 350 سے زیادہ حملوں کا نشانہ بن چکی ہیں۔ اسرائیلی فوج کی ان کارروائیوں میں 27 ہسپتالوں اور 50 ایمبولینس گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔

گزشتہ روز خان یونس کے نصر ہسپتال میں گولی لگنے سے دو افراد ہلاک ہو گئے اور آپریشن تھیٹر میں طبی عملے کا ایک رکن زخمی ہوا۔ 7 فروری کو ہسپتال کے احاطے میں پانی بھرتی ایک خاتون بھی گولی لگنے سے ہلاک ہو گئی تھی۔

ہسپتالوں کا محاصرہ
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا)نے فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی (پی سی آر ایس) کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ خان یونس میں نصر اور الامل ہسپتال 17 روز سے اسرائیلی فوج کے محاصرے میں ہیں۔

اطلاعات کے مطابق نصر ہسپتال کے قرب و جوار میں لوگوں کو سنائپر فائرنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اسرائیل کی فوج نے ایمبولینس گاڑیوں کو نصر ہسپتال جانے سے روک دیا ہے۔ تاہم اسرائیل نے اس الزام کی تردید کی ہے۔

علاقے میں شدید بمباری اور لڑائی جاری ہے۔ جنگ سے بچنے کے لیے ہزاروں افراد ملحقہ علاقے رفح کا رخ کر رہے ہیں۔

مغربی کنارے میں کشیدگی
‘ڈبلیو ایچ او’ نے بتایا ہے کہ طبی سہولیات پر حملے غزہ تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ جنگ شروع ہونے کے بعد مغربی کنارے میں بھی ایسے حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔

علاقے میں طبی مراکز پر اب تک 364 حملے ہو چکے ہیں جن میں 10 افراد ہلاک اور 62 زخمی ہوئے۔ طارق جاساروک کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں 15 موبائل ہسپتالوں اور 24 ایمبولینس گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا۔

غزہ کے طبی حکام کے مطابق علاقے میں اب تک 27,840 افراد ہلاک اور 67,300 زخمی ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے بتایا ہے کہ جنگ میں اس کے 225 فوجی ہلاک اور 1,314 زخمی ہوئے ہیں۔

قحط کا خطرہ
اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے کہا ہے کہ غزہ اور بالخصوص شمالی علاقوں میں قحط کا خطرہ روز بروز بڑھ رہا ہے۔ ‘اوچا’ کے مطابق شمالی غزہ میں ہزاروں لوگ امداد سے محروم ہیں جبکہ اسی جگہ مدد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ حالات اس قدر سنگین ہیں کہ لوگ جانوروں کی خوراک کھانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

‘اوچا’ کے مطابق فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) نے آخری مرتبہ 23 جنوری کو شمالی غزہ میں مدد پہنچائی تھی۔ اس کے بعد اب تک کوئی امدادی قافلہ اس علاقے میں نہیں پہنچ سکا۔

جنگ شروع ہونے سے اب تک عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے 1,940 ٹرکوں پر مشتمل امدادی سامان غزہ پہنچایا ہے جو مجموعی امداد کا 19 فیصد ہے۔ اس میں غذائی امداد کا حجم 32,413 ٹن ہے۔

بمباری میں شمالی غزہ کا ایک علاقہ مکمل طور پر زمین بوس ہو چکا ہے۔
بفر زون مسترد
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے ساتھ ‘بفر زون’ قائم کرنے کی کوشش جنگی جرم کے مترادف ہو سکتی ہے۔

ادارے کی ترجمان مارٹا ہورٹاڈو کا کہنا ہے کہ جنیوا کنونشن کی دفعہ 53 کے تحت قابض طاقت کے لیے عام لوگوں کی املاک کو تباہ کرنا غیرقانونی ہے۔ ایسا قدم عسکری کارروائیوں میں انتہائی ضرورت کے وقت ہی اٹھایا جا سکتا ہے۔ سلامتی کے عام مقاصد کے تحت بفر زون کا قیام اس شرط سے مطابقت نہیں رکھتا۔

ہسپتال میں ہلاکتیں
مغربی کنارے کے ایک ہسپتال میں انسداد دہشت گردی کی کارروائی میں تین مبینہ فلسطینی جنگجوؤں کی ہلاکت پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی فوج کے مطابق ان میں ایک فرد کے پاس بندوق بھی تھی۔ لیکن ہسپتال کے عملے نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس واقعے میں فائرنگ کے تبادلے کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے تحت ہتھیار اسی صورت میں استعمال کیے جا سکتے ہیں جب زندگی کو لاحق کسی فوری خطرے یا کسی کو شدید زخمی ہونے سے بچانے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہو۔ بصورت دیگر اس کی ممانعت ہے۔