جنوبی غزہ میں فلسطینی پناہ گزینوں کے خان یونس کیمپ میں ایک پانچ سالہ بچہ یونیسف کی طرف سے فراہم کی گئی پانی کی بوتل سے پیاس بجھا رہا ہے۔

غزہ میں چار روزہ جنگ بندی کا آغاز ہونے کے بعد اقوام متحدہ کے اداروں نے اس پر عملدرآمد اور توسیع کی امید کرتے ہوئے تمام لوگوں کو امداد کی فراہمی کی ضرورت واضح کی ہے۔

جمعے کی صبح 7 بجے سے جنگ بندی شروع ہونے کے بعد مصر سے رفح کے سرحدی راستے سے علاقے میں امدادی سامان کی آمد جاری ہے۔

 امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے ترجمان جینز لائرکے نے امید ظاہر کی ہے کہ اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی کے معاہدے پر عمل ہو گا۔

انہوں نے جینیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ اس سے مستقبل میں انسانی بنیادوں پر مستقل جنگ بندی کی راہ ہموار ہونے کی امید ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر یہ معاہدہ غزہ، اسرائیل اور فریقین کے یرغمالیوں اور قیدیوں کے لیے آسانیاں لائے گا۔

96 گھنٹے کی جنگ بندی کے علاوہ حماس کی قید میں یرغمالیوں کی رہائی اور فلسطینی قیدیوں کو اسرائیل سے رہا کرایا جانا بھی اس معاہدے کا حصہ ہے۔

شمالی غزہ کی ہنگامی ضروریات

اوچا کے ترجمان نے شمالی غزہ کے لوگوں کی اہم ضروریات کو واضح کیا جہاں سب سے زیادہ تباہی ہوئی ہے۔ اسرائیل کی عسکری کارروائیوں کے باعث اس کا جنوبی غزہ سے رابطہ منقطع رہا ہے اسی لیے وہاں امداد کی ضرورت بھی سب سے زیادہ ہے۔

انہوں نے جنگ بندی کے ابتدائی گھنٹوں میں نازک اور کشیدہ صورتحال کا تذکرہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امدادی کی فراہمی کا راستہ بہت طویل ہے اور اس کے بہت سے حصوں پر امدادی اداروں کا کنٹرول نہیں ہے۔

ہسپتالوں سے انخلا جاری

جنگ سے پہلے شمالی غزہ میں فعال 24 ہسپتالوں میں سے 22 اب طبی خدمات مہیا کرنے کے قابل نہیں رہے یا ان میں نئے مریضوں کو داخل کرنے کی گنجائش نہیں رہی۔ دوسری جانب جنوب میں 11 طبی مراکز میں سے 8 ہی فعال ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے بتایا ہے کہ ان ہسپتالوں میں سے صرف ایک ہی میں شدید زخمیوں کے علاج یا پیچیدہ سرجری کی سہولت موجود ہے۔

ادارے کے ترجمان کرسچین لِنڈمیئر نے بھی جنگ بندی قائم رہنے اور اس میں اضافے کی امید ظاہر کی ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ شمالی غزہ کے ہسپتالوں خصوصاً انڈونیشیا ہسپتال اور الاہلی ہسپتال سے مریضوں اور عملے کی منتقلی کا کام جاری ہے۔

غزہ میں عارضی جنگ بندی اور حماس کی قید میں یرغمالیوں کی رہائی کے لیے معاہدہ طے پانے کے بعد امدادی ادارے علاقے میں مدد پہنچانے کے لیے تیار ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس معاہدے پر جمعے سے پہلے عملدرآمد کے آغاز کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ کار مارٹن گرفتھس اور عالمی پروگرام برائے خوراک کی سربراہ سنڈی مکین نے بتایا ہے کہ دونوں ادارے غزہ میں مدد پہنچانے کے لیے تیار ہیں۔ علاقے میں محفوظ رسائی ملتے ہی بڑے پیمانے پر اور تیز رفتار سے امداد کی فراہمی کا کام شروع کر دیا جائے گا۔