غزہ کے علاقے خان یونس میں شدید لڑائی سے جان بچا کر ہزاروں لوگ جنوبی شہر رفح کا رخ کر رہے ہیں جس کی آبادی گنجائش سے کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے اداروں نے اس صورتحال کو ‘مایوسی کا پریشر ککر’ کہا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔
ہنگامی امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے ترجمان جینز لائرکے نے بتایا ہے کہ غزہ میں کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں رہی اور علاقے کی نصف سے زیادہ آبادی رفح میں جمع ہو چکی ہے۔ نئے پناہ گزین عارضی خیموں یا کھلے آسمان تلے رہ رہے ہیں۔
ہلاک، زخمی و لاپتہ
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق 7 اکتوبر کے بعد غزہ میں تقریباً ایک لاکھ لوگ ہلاک، زخمی یا لاپتہ ہو چکے ہیں۔
غزہ کے حکام صحت کا کہنا ہے کہ علاقے میں اب تک 27,019 شہریوں کی ہلاکت ہوئی ہے جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ ان کے علاوہ 66 ہزار سے زیادہ لوگ زخمی ہیں جنہیں طبی خدمات تک رسائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
طبی نظام منہدم ہونے کا خدشہ
مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے لیے ‘ڈبلیو ایچ او’ کے نمائندے ڈاکٹر رک پیپرکورن کا کہنا ہے کہ تحفظ کی ضمانت اور سہولت نہ ہونے کے باعث امدادی کارروائیوں کی محفوظ اور تیزرفتار طریقے سے انجام دہی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ ہسپتالوں تک متواتر رسائی کے فقدان کی وجہ سے طبی نظام منہدم ہونے کا خدشہ ہے۔
جنگ زدہ علاقے میں ہسپتالوں اور طبی مراکز میں ادویات اور سازوسامان کی کمی کو پورا کرنا نہایت مشکل کام ہے۔ جنوری میں شمالی غزہ کے لیے طے شدہ 15 امدادی کارروائیوں میں سے تین ہی انجام پا سکیں۔ راستے تباہ ہو جانے کے باعث چار امدادی مشن ناکام رہے، ایک کو ملتوی کرنا پڑا اور آٹھ کارروائیاں اجازت نہ ملنے کے باعث روک دی گئیں۔
گزشتہ مہینے جنوبی غزہ میں 11 امدادی مشن بھیجے جانا تھے جن میں سے چار ہی اپنے اہداف تک پہنچ سکے۔ ان میں دو کارروائیاں ملتوی ہو گئیں، دو راستے کی رکاوٹوں کے باعث ناکام رہیں اور تین کی اجازت نہیں دی گئی۔
بے یارومددگار بچے
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے بتایا ہے کہ غزہ میں کم از کم 17 ہزار بچے والدین یا سرپرستوں سے محروم ہیں یا بچھڑ گئے ہیں۔ فلسطین کے لیے یونیسف کے ترجمان جوناتھن کرکس نے کہا ہے کہ ان میں ہر بچہ بربادی اور دکھ کی دل شکن داستان سناتا ہے۔
یروشلم سے جنیوا میں صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے رواں ہفتے غزہ کے بچوں سے اپنی ملاقات کا احوال سنایا۔ انہوں نے بتایا کہ ان میں شامل ایک 11 سالہ بچے رضوان نے جنگ کے ابتدائی ہفتوں میں بمباری کے دوران اپنے تقریباً تمام اہلخانہ کو کھو دیا تھا۔
بمباری میں اس کی والدہ، والد، بھائی اور دو بہنیں ہلاک ہو گئیں۔ رضوان کی ایک ٹانگ بری طرح زخمی ہوئی اور ان کی جان بچانے کے لیے اسے کاٹنا پڑا۔ سرجری کے بعد اس کا زخم بھی خراب ہو گیا۔ اب چچا اور چچی اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں جو خود رفح میں بے گھر ہیں۔
انہوں نے بتایا ہے کہ خوراک، پانی اور پناہ کی سہولیات کی شدید قلت کے باعث یتیم اور بے سہارا ہو جانے والے بچے تو درکنار پورے کے پورے خاندانوں کو بھی بقا کے خطرات لاحق ہیں۔ خدشہ ہے کہ غزہ کے شمالی اور وسطی علاقوں میں اپنے والدین کو کھو دینے والے بچوں کی حالت اور بھی خراب ہو سکتی ہے۔
unnews