بھارت کی اصل جی ڈی پی کے بارےمیں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ یہ 2023-24 کے مالی سال میں 7.3 فیصد کےبقدر کی نمو حاصل کرے گی
خزانہ اور کمپنی امور کی وزیر محترمہ نرملا سیتا رمن نے پارلیمنٹ میں 2024-25کے لیے عبوری مرکزی بجٹ پیش کیا
آئندہ برس کے لیے اہم صرفہ تخمینہ 11.1 فیصد اضافے کے ساتھ 11،11،111 کروڑ روپئے کے بقدر مقرر کیا گیا ہے جو جی ڈی پی کا 3.4 فیصد ہوگا
2024-25 میں مالیاتی خسارے کا تخمینہ جی ڈی پی کے بالمقابل 5.1 فیصد کے بقدر کا لگایا گیا ہے
2014 سے 2023 کےد وران ایف ڈی آئی آمد 596 بلین امریکی ڈالر کے بقدر تھی، جو 2005 سے 2014 کے دوران کی آمد کے بالمقابل دوگنی ہے
غریب (نادار)، مہیلائیں (خواتین)، یووا (نوجوان) اور اَن داتا (کاشتکار) کی ترقی حکومت کی اعلیٰ ترین ترجیح ہے
نوجوانوں کے لیے 50 برسوں کے سود سے مبرا قرض کے ساتھ ایک لاکھ کروڑ روپئے کے بقدر کا سرمایہ فراہم کرایا جائے گا
ریاستوں کو اہم اخراجات کے لیے 50 برسوں کے سود سے مبرا قرض کی فراہمی کی اسکیم کو اس سال 1.3 لاکھ کروڑ روپئے کے مجموعی تخمینے کےساتھ جاری رکھا جائے گا
حکومت اس نظریے کےساتھ کام کر رہی ہے کہ ایسی ترقی لائی جائے جو ہمہ گیر، سبھی تک پہنچنے والی اور سبھی کی شمولیت پر مبنی ہو
بجٹ میں متعدد اعلانات اور حکمت عملیاں شامل ہیں جن سے بھارت کو 2047 تک وکست بھارت بنانے کے لیے سمت اور ترقیاتی نظریے کا اظہار ہوتا ہے
حکومت مشرقی خطے اور اس کے عوام کو بھارت کی نمو کا ایک طاقتور شریک کار بنانے کے لیے ازحد توجہ کے ساتھ کام کرے گی
حکومت تیز رفتار آبادی اضافے اور آبادی میں رونما ہوئی تبدیلیوں کے نتیجے میں درپیش چنوتیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دے گی
عبوری بجٹ میں ٹیکس کی شرحوں میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہ کرنے کی تجویز رکھی گئی ہے
تقریباً ایک کروڑ کےبقدر ٹیکس دہندگان کے بارے میں توقع کی جاتی ہے کہ وہ چند معمولی اور متنازعہ ٹیکس طلب میں فراہم کی جانے والی استثنائی سے مستفید ہے
حکومت بھارتی معیشت اب اور تب کے موضوع پر ایک قرطاس ابیض پیش کرے گی
پارٹ ۔ اے، خلاصہ
خزانہ اور کمپنی امور کی وزیر محترمہ نرملا سیتا رمن نے آج پارلیمنٹ میں 2024-25 کا عبوری مرکزی بجٹ پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ آئندہ برس کے لیے اہم صرفہ اخراجات کا تخمینہ 11.1 فیصد اضافے کے ساتھ 11،11،111 کروڑ روپئے کے بقدر کیا جا رہا ہے جو جی ڈی پی کے بالمقابل 3.4 فیصد کے بقدر ہوگا۔
خزانہ اور کمپنی امور کی وزیر محترمہ نرملا سیتا رمن نے آج پارلیمنٹ میں 2024-25 کا عبوری مرکزی بجٹ پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ آئندہ برس کے لیے اہم صرفہ اخراجات کا تخمینہ 11.1 فیصد اضافے کے ساتھ 11،11،111 کروڑ روپئے کے بقدر کیا جا رہا ہے جو جی ڈی پی کے بالمقابل 3.4 فیصد کے بقدر ہوگا۔
انہوں نے کہا، یہ قدم گذشتہ 4 برسوں کے دوران اہم اخراجات کے تخمینے میں رونما ہوئے زبردست تین گنا کے اضافے کے پیش نظر اٹھایا گیا ہےجس کے نتیجے میں اقتصادی نمو اور روزگار بہم رسانی کےمعاملےمیں کثیر پہلوئی اثرات مرتب ہوں گے۔2023-24 کے اولین قومی آمدنی پیشگی تخمینے کے مطابق، جسے وزارت خزانہ کی تقریر کے ساتھ پیش کیا گیا، بھارت کی اصل جی ڈی پی کے بارے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ 7.3 فیصد کے بقدر کی نمو حاصل کرے گی۔ یہ چیز بھی 2023-24 کےبارےمیں آربی آئی کے ذریعہ (ان کے دسمبر 2023 کے مالیاتی پالیسی کمیٹی میٹنگ) کے نمو سے متعلق اندازوں کے فزوں تر نظرثانی کے عین مطابق ہے جسے 6.5 سے بڑھا کر 7 فیصد کر دیا گیا ہے، اس کے پس پشت 2023-24 کے مالی سال کی دوسری سہ ماہی کی مضبوط نمو کارفرما ہے۔
بھارتی معیشت نے لچک کا مظاہرہ کیا ہے اور عالمی اقتصادی چنوتیوں کے باوجود صحت مند اجتماعی اقتصادی بنیادی عناصر قائم رکھے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپنے ماہ اکتوبر 2023 کے عالمی اقتصادی آؤٹ لک میں 2023-24 کے مالی سال کے لیے بھارت کے لیے اپنے نمو کے تخمینوں پر نظرثانی کی ہے اور یہ نظرثانی ماہ جولائی 2023 کی 6.1 فیصد کے تخمینے کے مقابلے میں فزوں تر ہوکر 6.3 فیصد کے بقدر ہوگئی ہے۔ اس سے ایسے وقت میں جب 2023 کے لیے نمو کے اندازے اپنے پہلے جیسی حالت یعنی 3 فیصد میں ہیں، کے باوجود بھارتی اقتصادی قوت کے تئیں فزوں تر ہوتے ہوئے عالمی اعتماد کا اظہار ہوتا ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق، بھارت امکانی طور پر 2027 میں تیسری وسیع تر معیشت بن جائے گا (منڈی ایکسچینج شرحوں کے معاملے میں امریکی ڈالر کے مطابق) اور یہ بھی تخمینہ لگایا گیا ہے کہ عالمی نمو میں بھارت کا تعاون آئندہ پانچ برسوں میں 200 نکات کے اضافے سے ہمکنار ہوگا۔ اس کے علاوہ، مختلف النوع بین الاقوامی ایجنسیاں مثلاً عالمی بینک، آئی ایم ایف، او ای سی ڈی اور اے ڈی بی نے تخمینہ لگایا ہے کہ بھارت 2024-25 میں بالترتیب 6.4 فیصد، 6.3 فیصد ، 6.1 فیصد اور 6.7 فیصد کی شرح نمو حاصل کرے گا۔
وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ اقتصادی سرگرمی میں رونما ہونے والی مضبوط نمو نے مالیہ کلکشن اور تقویت بخشی ہے اور ماہ دسمبر 2023 میں جی ایس ٹی کلکشن 1.65 لاکھ کروڑ روپئے کے بقدر رہا ہے۔ ایسا ساتویں مرتبہ رونما ہوا ہے جب مجموعی جی ایس ٹی مالیہ 1.6 لاکھ کروڑ روپئے کےنشان سے تجاوز کر گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ، 2024-25 کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے قرضوں کے علاوہ کلی حصولیابیاں اور مجموعی اخراجات کا تخمینہ بالتریب 30.80 اور 47.66 لاکھ کروڑ روپئے کے بقدر کا لگایا گیا ہے۔ ٹیکس حصولیابیوں کے بارے میں 26.02 لاکھ کروڑ روپئے کے بقدر رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے ۔
ایک اہم اعلان کے تحت وزیر خزانہ نے کہا کہ ریاستوں کو فراہم کیے جانے والے پچاس برس کے سود سے مبرا قرض کی اسکیم کے تحت جو اہم اخراجات کے تحت فراہم کرایا جا تاہے ، اس اسکیم کو اس سال بھی 1.3 لاکھ کروڑ روپئے کے تخمینہ اخراجات کی مدد سے جاری رکھا جائے گا۔ اس سال پچاس برس کے لیے سود سے مبرا قرض کے طور پر 75 ہزار کروڑ روپئے کی رقم ریاستی حکومتوں کی جانب سے وکست بھارت سے متعلق سنگ میل مختلف النوع اصلاحات کو عمل میں لانے کے لیے بطور امداد فراہم کرانے کی تجویز ہے۔
مالیاتی استحکام کا حوالہ دیتے ہوئے، جس کا اعلان 2021-22 کی بجٹی تقریر میں کیا گیا تھا، مالیاتی خسارے کو 2025-26 تک 4.5 فیصد سے بھی کم کرنے کے لیے، محترمہ سیتا رمن نے کہا کہ 2024-25 میں مالی خسارے کا تخمینہ جی ڈی پی کے بالمقابل 5.1 فیصد کے بقدر کا لگایا گیا ہے، اور اس طرح سے طے شدہ راستہ اپنایا گیا ہے۔
اسی طریقے سے،مؤرخہ تمسکات کے توسط سے 2024-25 کے دوران خالص منڈی قرضوں کا مجموعی تخمینہ بالترتیب 14.13 اور 11.75 لاکھ کروڑ روپئے کے بقدر ہے اور یہ دونوں قرضے 2023-24 کے مقابلے میں کم ہوں گے۔
معیشت کے چند تابناک پہلوؤں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وزیر خزانہ مطلع کیا کہ قرضوں کے علاوہ مجموعی حصولیابیوں کا نظرثانی شدہ تخمینہ 27.56 لاکھ کروڑ روپئے کے بقدر کا ہے جس میں سے ٹیکس حصولیابیاں 23.24 لاکھ کروڑ روپئے کے بقدر کی ہیں۔ مجموعی اخراجات کا نظرثانی شدہ تخمینہ 44.90 لاکھ کروڑ روپئے کے بقدر کا ہے ۔ 30.03 لاکھ کروڑ روپئے کے بقدر کی مالیاتی حصولیابیوں کے بارے میں توقع کی جاتی ہے کہ وہ بجٹی تخمینوں کےمقابلے میں زیادہ رہیں گی جس سے مضبوط نمو فعالیت اور معیشت کی رسمی تشکیل کا اشارہ ملتا ہے۔
محترمہ سیتا رمن نے مؤرخہ تمسکات کے توسط سے 2024-25 کے دوران خالص منڈی قرضوں کا تخمینہ بالترتیب 14.13 اور 11.75 لاکھ کروڑ روپئے کے بقدر کا لگایا گیا ہے اور یہ 2023-24 کے مقابلے میں کم ہوں گے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ 2014 سے 2023 کے دوران ایف ڈی آئی آمد 596 بلین امریکی ڈالر کے بقدر تھی، جس سے ایک طلائی عہد کا پتہ ملتا ہے اور یہ 2005 سے 2014 کی مدت کے مقابلے میں دوگنی آمد ہے۔
ہمہ گیر غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے ہم چار غیر ملکی شراکت داروں کے ساتھ ’اولین ترقی یافتہ بھارت‘ کے جذبے کے تحت باہمی سرمایہ کاری معاہدات کر رہے ہیں۔
محترمہ سیتا رمن نے کہا کہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی مضبوطی سے اس امر میں یقین رکھتے ہیں اور ان کی توجہ چار بڑی ذاتوں پر مرکوز ہیں۔ یہ ہیں : غریب (نادار) ، مہیلائیں (خواتین)، یووا (نوجوان) اور اَن داتا (کاشتکار)۔ انہوں نے کہا کہ ان کی ضروریات ان کی توقعات اور ان کی فلاح و بہبود حکومت کی اعلیٰ ترین ترجیحات میں شامل ہے، کیونکہ ملک جبھی ترقی کرے گا جب وہ ترقی کریں گے۔
محترمہ سیتا رمن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ترقی کے تئیں اس حکومت کا مبنی بر انسانیت اور مبنی بر شمولیت نظریہ سابقہ نظریے سے یکسر مختلف ہے کیونکہ ا س سے پہلے کی حکومت صرف گاؤں کی سطح سے متعلق تجاویز سے منسلک تھی۔ گذشتہ دس برسوں کے دوران ترقیاتی پروگراموں نے سب کے لیے مکان، ہر گھر جل، سب کے لیے بجلی، سب کے لیے کوکنگ گیس ، سب کے لیے بینک کھاتے اور مالی خدمات ، ایک ریکارڈ مدت کے اندر بہم پہنچانے کا ہدف مقرر کیا ہے ۔
وزیر خزانہ نے زور دے کر کہا کہ حکومت ایک ایسی ترقی کے نظریے کو لے کر کام کر رہی ہے جو چہار جانب ہو، سب تک پہنچنے والی ہو اور سب کی شمولیت پر مبنی ہو۔ یہ تمام سطحوں پر تمام ذاتوں اور افراد پر احاطہ کرتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم بھارت کو 2047 تک ایک وکست بھارت بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس ہدف کے حصول کے لیے ہمیں عوام الناس کی اہلیت میں اضافہ کرنا ہوگا اور انہیں بااختیار بنانا ہوگا۔
انہوں نے یہ بھی اشارہ کیا کہ اس سے پہلے سماجی انصاف محض ایک سیاسی نعرہ تھا، ہماری حکومت کے لیے سماجی انصاف ایک مؤثر اور ضروری حکمرانی ماڈل ہے۔
وزیر خزانہ نے پارلیمنٹ کی میزوں سے تعریف و توصیف کی آوازوں کے درمیان اعلان کیا کہ بھارتی معیشت نے گذشتہ دس برسوں کے دوران عمیق مثبت تغیر ملاحظہ کیا ہے اور بھارت کے عوام ازحد امید اور حوصلے کے ساتھ مستقبل کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ روزگار اور صنعت کاری کے لیے مزید مواقع بہم پہنچانے کی غرض سے صورتحال سازگار بنائی گئی ہے۔ معیشت کو نئی قوت حاصل ہوئی ہے۔ ترقی کے ثمرات بڑے پیمانے پر عوام تک پہنچنے لگے ہیں۔ ملک کو مقصد اور امید کا ایک نیا جذبہ حاصل ہوا ہے ۔
وزیر خزانہ نے مطلع کیا کہ ’سب کا ساتھ‘ کے مقصد کے حصول کے ساتھ ان دس برسوں میں حکومت نے 25 کروڑ کے بقدر افراد کو کثیر پہلوئی ناداری کے دائرے سے باہر نکلتا ہوا ملاحظہ کیا ہے اور اب حکومت کی جانب سے کی جانے والی کوششیں اس طرح کے بااختیار عوام کی توانائی کے ساتھ ہم آہنگ ہو رہی ہیں۔
انہوں نے مطلع کیا کہ پی ایم مدرا یوجنا نے صنعت کاری پر مبنی امنگوں کی تکمیل کے لیے مجموعی طور پر 22.5 لاکھ کروڑ روپئے کے قرضوں کی فراہمی کے لیے 43 کروڑ کے بقدر قرضے منظور کیے ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر معقول ہوگا کہ 30 کروڑ کے مدرا یوجنا قرضے خواتین صنعت کاران کو فراہم کیے گئے ہیں۔
عبوری بجٹ میں متعدد اعلانات اور حکمت عملیاں شامل ہیں جن سے 2047 تک بھارت کو وکست بھارت بنانے کے تئیں سمت اور ترقیاتی نظریے کا اظہار ہوتا ہے۔
اعلانات کی ایک فہرست گناتے ہوئے، محترمہ نرملا سیتا رمن نے کہا کہ حکومت مشرقی خطے اور اس کے عوام کو بھارت کی نمو کا ایک اہم آلہ کار بنانے کے لیے ازحد توجہ مرکوز کرے گی۔ پی ایم آواس یوجنا (گرامین) تین کروڑ مکانات کے ہدف کی تکمیل کے قریب ہے اور مزید دو کروڑ مکانات پر آئندہ پانچ برسوں میں کام شروع کیا جائے گا تاکہ کنبوں کی تعداد میں ہوئے اضافے سے پیدا ہوئی ضروریات کی تکمیل کی جا سکے۔ اسی طریقے سے مکانات کی چھتوں پر شمسی توانائی کو بروئے کار لانے کا انتظام کرکے ایک کروڑ کے بقدر کنبوں کو ہر مہینے 300 یونٹ کے بقدر مفت بجلی حاصل ہو سکے گی۔
پردھان منتری کسان سمپدا یوجنا نے 38 لاکھ کے بقدر کاشتکاروں کو فائدہ پہنچایا ہے اور 10 لاکھ کےبقد رروزگار بہم پہنچائے ہیں۔ چھوٹی خوراک ڈبہ بندی صنعتوں کو رسمی شکل دینے کی پردھان منتری یوجنا نے 2.4 لاکھ ایس ایچ جی کو مدد بہم پہنچائی ہے اور ساٹھ ہزار افراد کو قرض روابط فراہم کیے ہیں۔
محترمہ نرملا سیتا رمن نے اعلان کیا کہ ہمارے تکنالوجی آگہی کے حامل نوجوانوں کے لیے یہ ایک زریں عہد ہوگا، کیونکہ پچاس برس کے سود سے مبرا قرض کے حامل ایک لاکھ کروڑ روپئے کے بقد رکا سرمایہ بہم پہنچایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سرمایہ طویل مدت یا کم یا صفر شرح ہائے سود کے ساتھ طویل مدت سرمایہ یا ازسر نو سرمایہ فراہمی کا باعث ثابت ہوگا۔ اس کے ذریعہ نجی شعبے کو نئے شعبوں میں تحقیق اور اختراع کے معاملے میں بڑے پیمانے پر اپنی کوششوں کو بڑھاوا دینے کا حوصلہ ملے گا۔
ریلوے کے لیے، تین اہم اقتصادی ریلوے گلیارے پروگرام نافذ کیے جائیں گے، توانائی، معدنیات اور سیمنٹ کے گلیارے، بندرگاہ کنکٹیویٹی گلیارے اور جن گلیاروں میں نقل و حمل کی زیادتی دیکھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، چالیس ہزار کے بقدر عام زمرے کی ریل بوگیوں کو وندے بھارت معیارات کا حامل بنا یا جائے گا تاکہ مسافروں کے لیے سلامتی سہولت اور آرام کو یقینی بنایا جا سکے۔
ہوابازی کے شعبے میں ہوائی اڈوں کی تعداد دوگنی ہوکر 149 کے بقدر ہوگئی ہے اور آج 517 نئے راستے 1.3 کروڑ مسافروں کو لا نے لے جانے کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ بھارتی کیریئرس نے 100 سے زائد نئے طیاروں کے حصول کے لیے سرگرمی کے ساتھ آرڈر پلیس کیے ہیں۔
محترمہ نرملا سیتا رمن نے اعلان کیا کہ حکومت تیز رفتار اضافہ آبادی اور آبادی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں درپیش چنوتیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دے گی اور یہ کمیٹی اپنی جانب سے ان چنوتیوں کو جامع طور پر حل کرنے کے لیے سفارشات پیش کرے گی۔ یہ سفارشات وکست بھارت کے ہدف کے حصول سے متعلق ہوں گی۔
وزیر خزانہ نے اشارہ کیا کہ وزیر اعظم نے ہمارے جمہوریہ کے 75ویں برس میں اپنی یوم آزادی کی تقریر میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اپنے آپ کو نئی ترغیب، نئے احساس، نئے عزم کے ساتھ قومی ترقی کے لیے وقف کرتےہیں کیونکہ ملک بے پناہ مضمرات اور امکانات اور مواقع کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ ہمارا کرتویہ کال ہے ۔ 2014 سے قبل کی ہر چنوتی پر اقتصادی انتظام اور حکمرانی کے ذریعہ قابو حاصل کر لیا گیا ہے اور ان امور نے ملک کو ہمہ گیر نمو کے پر عزم راستے پر گامزن کر دیاہے۔
محترمہ نرملا سیتارمن نے زور دے کر کہا کہ یہ سب کچھ ہماری صحیح پالیسیوں، سچے ارادوں اور معقول فیصلوں کے طفیل ممکن ہوا ہے۔ ماہ جولائی میں جب مکمل بجٹ پیش کیاجائے گا۔ ہماری حکومت وکست بھارت کے سلسلے میں ہماری جستجو کا ایک تفصیلی لائحہ عمل پیش کرے گی۔
پارٹ بی۔ خلاصہ
عبوری بجٹ میں ٹیکسیشن سے متعلق کوئی تبدیلی کی تجویز شامل نہیں ہے۔ درآمداتی محصولات سمیت براہِ راست ٹیکسوں اور بالواسطہ ٹیکسوں کی وہی شرحیں برقرار رکھی گئی ہیں، تاہم ٹیکسیشن میں تسلسل برقرار رکھنے کے لیے اسٹارٹ اپ اداروں اور خودمختار دولت یا پنشن فنڈ کے ذریعہ کی جانے والی سرمایہ کاریوں کے معاملے میں کچھ ٹیکس فوائد فراہم کیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ چند آئی ایف سی اکائیوں کو ٹیکس سے متعلق کچھ استثنائیاں بھی فراہم کی گئی ہیں۔ یعنی ان استثنائیوں کو مزید ایک سال یعنی 31 مارچ 2025 تک بڑھا دیا گیا ہے۔
براہِ راست بقایہ ٹیکس طلب کو واپس لیا گیا ہے
محترمہ سیتا رمن نے ٹیکس دہندہ خدمات میں اصلاح کے لیے ایک اعلان کیا ہے جو حکومت کے زندگی بسر کرنے کو آسان بنانے اور کاروبار کو سہل بنانے کے نظریے کے عین مطابق ہے۔ بڑی تعداد میں ایسی چھوٹی اور غیر تصدیق شدہ، غیر تصفیہ شدہ یا متنازعہ ٹیکس طلب ہیں جن میں سے متعدد طلب 1962 سے اب تک التوا میں ہے جو اب بھی حساب کتاب کے کھاتوں میں بنی ہوئی ہیں۔ اس سے ایماندار ٹیکس دہندگان کے لیے پریشانی کھڑی ہوتی ہے اور یہ طلب بعد کے برسوں کے ریفنڈ کے راستے میں سدباب بنتی ہیں۔ عبوری بجٹ اس طرح کی 25000 روپئے تک کی براہِ راست ٹیکس ڈیمانڈس جو بقایہ ہیں انہیں واپس لینے کی تجویز رکھی گئی ہے، یعنی ان کا تعلق سال 2009-10 تک کے مالی سال کے لیے اور 10000 روپئے تک کی آؤٹ اسٹینڈنگ ڈیمانڈ 2014-2015 تک کے لیے ہے، جنہیں واپس لے لیا گیا ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ اس سے ایک کروڑ ٹیکس دہندگان کو فائدہ حاصل ہوگا۔
براہِ راست ٹیکس کلکشن تین گنا ہوا
ٹیکس دہندگان کی جانب سے حاصل ہوئی حمایت کےلیے ان کے قدم کی تعریف کرتے ہوئے محترمہ سیتا رمن نے کہا کہ گذشتہ 10 برسوں میں براہِ راست ٹیکس کلکشن تگنا سے بھی زیادہ ہوا ہے اور ریٹرن داخل کرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 2.4 گنا کے بقدر ہوگئی ہے۔ انہوں نے اس امر کو اجاگر کیا کہ حکومت نے ٹیکس کی تاریخوں میں تخفیف اور انہیں معقول بنایا ہے جس کے نتیجے میں ٹیکس کے نئے نظام کے تحت 7 لاکھ روپئے تک کی آمدنی والے ٹیکس دہندگان پر کسی قسم کا آمدنی ٹیکس عائد نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک پیشگی ٹیکسیشن کی حد کی بات ہے، جس کا تعلق خوردہ کاروبار سے ہے، ساتھ ہی ساتھ پیشہ واران سے بھی ہے۔ وزیر موصوفہ نے کہا کہ موجودہ گھریلو کمپنیوں کے لیے کارپوریٹ ٹیکس کی شرحوں کو 30 فیصد سے گھٹا کر 22 فیصد کر دیا گیا ہے اور چند نئی مینوفیکچرنگ کمپنیوں کے لیے گھٹا کر 15 فیصد کے بقدر بھی کر دیا گیا ہے۔ اپنی عبوری بجٹ تقریر میں وزیر موصوفہ نے کہا کہ گذشتہ 5 برسوں میں حکومت کی توجہ ٹیکس دہندہ خدمات میں بہتری لانے پر مرکوز رہی ہے۔ جس کے نتیجے میں دیرینہ محدود دائرے پر مبنی احتساب نظام میں تغیر رونما ہوا ہے۔ اور ٹیکس ریٹرن داخل کرنے کا کام سہل او رآسان بنایا گیا ہے۔ ریٹرن کو پروسیس کرنے کی اوسط مدت 2013-14 میں 93 دنوں کے بقدر تھی، وہ اس سال گھٹا کر 10 دن ہوگئی ہے۔ اس کے ذریعہ ریفنڈس تیز رفتار بنایا گیا ہے۔
جی ایس ٹی میں تخفیف اور قواعد و ضوابط کے وزن میں کمی
بالواسطہ ٹیکسوں کے معاملے میں خزانہ اور کمپنی امور کی وزیر محترمہ نرملا سیتا رمن نے کہا کہ جی ایس ٹی نے تجارت و صنعت پر مختلف قواعد و ضوابط پر عمل کرنے کے وزن میں تخفیف کی ہے اور بھارت ازحد منتشر بالواسطہ ٹیکس نظام کو منظم بنایا ہے ۔ ایک سرکردہ مشاورتی فرم کے ذریعہ حال ہی میں کیے گئے ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 94 فیصد کے بقدر صنعتی قائدین جی ایس ٹی کی جانب پیش رفت کو بیشتر طور پر مثبت خیال کرتے ہیں۔ اپنی عبوری بجٹ کی تقریر میں وزیر موصوفہ نے اس حقیقت کو نمایاں کرکے پیش کیا کہ جی ایس ٹی کی ٹیکس بنیاد دوگنی سے زیادہ ہوگئی ہے اور اوسط ماہانہ مجموعی جی ایس ٹی کلکشن اس سال تقریباً دوگنا ہوکر 1.66 لاکھ کروڑ روپئے کے بقدر ہوگیا ہے۔ ریاستوں کو بھی فائدہ حاصل ہوا ہے۔ ریاستوں کا ایس جی ایس ٹی مالیہ جن میں ریاستوں کو جاری کیے جانے والے معاوضات بھی شامل ہے۔ مابعد جی ایس ٹی مدت یعنی 2017-18 سے لے کر 2022-23 کےد وران اضافے سے ہمکنار ہوکر 1.22 کے بقدر ہوگیا ہے۔ وزیر موصوف نے کہا کہ سب سے زیادہ صارفین کو حاصل ہوا ہے کیونکہ لاجسٹکس کی لاگت اور ٹیکسوں میں تخفیف کے نتیجے میں بیشتر سازو سامان اور خدمات کی قیمتیں کم ہوئی ہیں۔ بین الاقوامی تجارت کاراستہ آسان بنانے کے لیے کسٹم کے سلسلے میں کیے گئے متعدد اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے محترمہ سیتا رمن کہا کہ درآمداتی اجراء کا وقت 47 فیصد کم ہوکر 71 گھنٹوں کے بقدر رہ گیا ہے اور اندرون ملک کنٹینر ڈپو میں ایسا ہوا ہے، 28 فیصد تخفیف ہوئی ہے اور یہ وقت 44 گھنٹوں کے بقدر ہوگیا ہے۔ ہوائی کارگو کامپلیکس میں صرف ہونے والے وقت میں 27 فیصد کی کمی آئی ہے اور یہ 85 گھنٹے کےبقدر ہوگیا ہے۔ 2019 سے گذشتہ 4 برسوں کے دوران یہ تمام آسانیاں فراہم ہوئی ہیں۔
قرطاس ابیض کا پیش کیا جانا
بھارتی معیشت کی نوعیت پر مرکزی وزیر نے کہا کہ 2014 میں معیشت کو قدم بہ قدم بہتر بنانے کی ذمہ داری اور حکمرانی کےنظام کو اصلاح کے تحت لانا ایک کار دارد تھا، جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ کام حکومت کی جانب سے اس کی ملک کو اولیت کے تئیں مضبوط وابستگی پر عمل کرتے ہوئے کامیابی کے ساتھ مکمل کیا گیا۔ انہوں نے یقین دلایا کہ ان دنوں کے بحران پر قابو حاصل کر لیا گیا ہے اور معیشت کو مضبوطی کے ساتھ اعلیٰ ہمہ گیر نمو کے راستے پر ہمہ گیر ترقی کے ساتھ گامزن کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ حکومت ایک قرطاس ابیض لے کر آئے گی، جہاں 2014 تک ہم کہاں تھے اور اب ہم کہاں ہیں ،کی وضاحت ہوگی۔ یہ صرف اس مقصد کے لیے کیا جائے گاکہ ان دنوں کی بدانتظامی سے سبق حاصل کیا جائے۔