AMN
امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے عالمی تجارتی تنظیم ، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن ، ڈبلیو ٹی او کے تعلق سے حال ہی میں پھرکچھ ایسی باتیں کہہ دی ہیں جس سے دنیا بھر کے اقتصادی اور تجارتی حلقوں ، خاص طور سے ترقی پذیر ملکوں میں کسی قدر تشویش پائی جا رہی ہے۔ امریکی صدر نے کہا ہے کہ اگر ضروری سمجھا گیا تو امریکہ دنیا کے اس سب سے بڑے بین الاقوامی تجارتی ادارے سے الگ ہو جائے گاکیونکہ ان کے بقول ترقی پذیر ممالک اس کا بے جا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ڈونالڈٹرمپ نے ایک حالیہ تقریر میں کہا کہ یہ ادارہ امریکہ کی بات کم سنتا ہے اور چین ، بھارت اور دوسرے ملکوں کو اس سے فائدہ اٹھانے کا زیادہ موقع ملتا ہے۔ ڈبلیو ٹی او امریکی صدر کے مطابق اِن ترقی پذیر ملکوں کے بارے میں عرصے سے یہ کہتا آیا ہے کہ یہ ملک ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھ رہے ہیں جب کہ یہ اب ترقی پذیر ملک نہیں رہ گئے ہیں پھر بھی انھیں بہت سی رعایتیں ملی ہوئی ہیں۔ ڈبلیو ٹی او میں زیرِ بحث آنے والے تجارتی تنازعات کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پہلے امریکہ جب بھی ان تنازعات پر اپنا کیس رکھتا تھا تو اسے شکست کا منھ دیکھنا پڑتاتھا اور یہ ملک اپنے مقدمے جیت جاتے تھے۔مگر جب اُن کا، یعنی ڈونالڈ ٹرمپ کا دورِ اقتدار آیا تب اُن کے بقول حالات بدلے اوراب امریکہ کو اِن معاملوں میں کامیابی مل رہی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ چند ہفتے پہلے بھی ڈبلیو ٹی او کی نکتہ چینی کر چکے ہیں۔ تب انھوں نے کہا تھا کہ ڈبلیو ٹی او کو خصوصی تجارتی تحفظات کا حق رکھنے والے ترقی پذیر ملکوں کی نئے سرے سے درجہ بندی کرنی چاہیے۔

ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن بین الاقوامی تجارت کے ضابطے متعین کرنے والا چوبیس سال پرانا ادارہ ہے جو کم وبیش اسی نوعیت کے 1948میں قائم کیے گئے ادارے جنرل ایگریمنٹ آن ٹریڈ اینڈ ٹیرفس یعنی گیٹGATT کی جگہ پر یکم جنوری 1995کو مراقش معاہدے کے تحت قائم کیا گیا تھا۔اس معاہدے پر 123ملکوں نے دستخط کیے تھے اور اس میں تجارتی لحاظ سے ملکوں کو تین زمروں میں تقسیم کیا گیاتھا۔ ترقی یافتہ ملک، ترقی پذیر ملک اور بہت کم ترقی کرنے والے ملک۔ ترقی یافتہ ملکوں میں، امریکہ،یوروپی یونین،جاپان ،کناڈا،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔ ترقی پذیر ملکوں میں بھارت، چین، روس، برازیل، جنوبی افریقہ اورجنوبی کوریا جیسے ملکوں کا نام آتا ہے جب کہ سب سے کم ترقی کرنے والوں میں افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، میانمار، نیپال اور سوڈان وغیرہ شمار ہوتے ہیں۔ ڈبلیو ٹی او سے امریکہ کی ممکنہ علاحدگی کا بظاہر اس کے تنظیمی ڈھانچے پر کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے لیکن وہ چونکہ موجودہ دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت مانا جاتاہے اِس لیے اُس کے عمل سے ڈبلیو ٹی او ایک غیر موثر ادارے میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔

مگرضروری نہیں کہ یہی ہو۔ عام طور سے سیاسی، سفارتی اور تجارتی حلقوں میں ڈونالڈ ٹرمپ کے بیانات کوبہت زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ کئی معاملات میں وہ اپنا رخ بدل چکے ہیں۔ ایران کے معاملے میں وہ 2015کے جوہری معاہدے کو توڑ کر امریکہ کوایک بے سود تصادم کی راہ پر ڈال چکے ہیں۔ افغانستان کے مسئلے پر بھی ان کے موقف بدلتے رہتے ہیں۔ کئی ہفتے پہلے انھوں نے یہ کہہ کرکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ملاقات کے دوران اُن سے کشمیر کے مسئلے پر بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالث بننے کی درخواست کی تھی ، یہ واضح کردیا کہ وہ غیر ذمہ دارانہ بیان بازی میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔کیونکہ اس مسئلے پر بھارت کسی تیسرے ملک یا فریق کی کسی بھی قسم کی مداخلت کا شروع سے مخالف رہا ہے چنانچہ کوئی بھارتی رہنما ڈونالڈ ٹرمپ سے ایسی درخواست کبھی خواب میں بھی نہیں کر سکتااور یہ بات ساری دنیا جانتی ہے۔

ڈبلیو ٹی او کے معاملے میں صدر ٹرمپ کے فرمودات کا خاص پہلو یہ ہے کہ وہ چونکہ دوسری مدت کے لیے بھی صدر بننا چاہتے ہیں اس لیے ہر معاملے میں امریکی عوام کو امریکہ کی بالاتری قائم رکھنے کا تاثر دینے کے مقصد سے وہ یہ سب باتیں کہہ رہے ہیں۔پھر بھی اگر کچھ ہوتا ہےتو بھارت اور چین ایسے ملک نہیں ہیں جو اپنے قومی مفادات کو نظر انداز کردیں گے یاامریکہ کے تجارتی مفادات پرصدر ٹرمپ کی پالیسی کا کوئی منفی اثر نہیں ہوگا