اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے غزہ میں مکمل تباہی کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سلامتی کونسل اس تنازع میں موثر کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے، تاہم وہ خود ہمت نہیں ہاریں گے۔
قطر میں ‘مشترکہ مستقبل کی تعمیر’ کے موضوع پر ‘دوحہ فورم’ سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امدادی نظام غیرفعال ہو جانے کے باعث غزہ شدید خطرے سے دوچار ہے۔ فلسطینیوں اور خطے میں امن و سلامتی کی صورتحال پر اس کے خطرناک اثرات سے بچنے کی بظاہر کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی۔
انہوں نے کہا کہ 7 اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر ہولناک حملوں اور اس کے بعد غزہ پر اسرائیل کی متواتر بم باری پر سلامتی کونسل میں خاموشی دیکھنے کو ملی۔ کونسل نے علاقے کی صورت حال پر ایک ماہ بعد پہلی قرارداد منظور کی۔ اگرچہ یہ خوش آئندہ اقدام تھا لیکن غزہ کے لوگوں کو اس تاخیر کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔
انہوں نے 15 نومبر کو منظور ہونے والی اس قرارداد پر عملدرآمد نہ ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے معاملے پر سلامتی کونسل کا اختیار اور ساکھ بری طرح کمزور ہوئے ہیں۔
سلامتی کونسل کی لاچارگی
گزشتہ بدھ کو سیکرٹری جنرل نے ادارے کے چارٹر کے آرٹیکل 99 کے تحت سلامتی کونسل کے صدر کو خط لکھا تھا۔ اس میں انہوں نے کونسل پر زور دیا تھا کہ وہ غزہ میں انسانی تباہی کو روکے اور اسرائیل اور فلسطینی جنگجوؤں کے مابین مکمل جنگ بندی کا متفقہ مطالبہ کرے۔
2017 میں عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے آرٹیکل 99 کو استعمال کیا۔
اس خط میں ان کا کہنا تھا کہ اس قدر مختصر وقت کے دوران غزہ میں جتنی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی ہیں اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ غزہ میں طبی نظام تباہی کے دھانے پر ہے اور نظم و نسق کسی بھی وقت ختم ہو سکتا ہے۔ انہوں نے وبائی بیماریاں پھیلنے اور بڑے پیمانے پر مصر کی جانب نقل مکانی کے خدشے کے بارے میں بھی خبردار کیا۔
دوحہ میں خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ بین الاقوامی تنازعات کو حل کرنے کے ممتاز ترین فورم کی حیثیت سے سلامتی کونسل ارضی تزویراتی تقسیم کے باعث مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
سیکرٹری جنرل نے گزشتہ دنوں ایک ہفتے کی جنگ بندی کے لیے کامیاب ثالثی پر قطر کے امیر اور حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ امن کے اس وقفے کی بدولت غزہ میں امداد کی فراہمی میں اضافہ ہوا اور یرغمالیوں کی رہائی عمل میں آئی تھی۔
UN Photo/Loey Felipe سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل جیو پولیٹیکل تقسیم کے باعث مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
مساوات اور یکجہتی کی ضرورت
انہوں نے کہا کہ عالمی نظام کو وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیلی لانا ضروری ہو گیا ہے۔ اب ایسے نظام درکار ہیں جن کی بنیاد مساوات، یکجہتی، اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون پر ہو۔ اس وقت سلامتی کونسل کے فیصلے یوکرین سے میانمار اور مشرق وسطیٰ تک ہر جگہ مسائل کے حل میں ناکام ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ خلیج پاٹی جائے اور عالمگیر مسائل کے مشترکہ حل تلاش کیے جائیں۔
اس موقع پر فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے ‘انرا’ کے سربراہ فلپ لازارینی نے کہا کہ عالمی برادری نے غزہ پر اسرائیل کی متواتر بمباری سے صرف نظر کیا۔ اس تنازع میں 7 اکتوبر کے بعد 17 ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اگر غزہ کو جہنم زار بننے سے روکنا ہے تو انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی فوری ضرورت ہے۔
عالمی نظم و نسق کی کمزوری
سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل سے ہٹ کر دیکھا جائے تو عالمگیر نظم و نسق دو خطرات سے نمٹنے میں ناکام رہا ہے۔ ان میں ایک خطرہ موسمیاتی تباہی ہے جس پر قابو پانے کے لیے گرین ہاؤس گیسوں میں اضافہ روکنے کی غرض سے مزید عزم کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وعدوں کے باجود ماحول تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج اب تک کی بلند ترین سطح پر ہے اور معدنی ایندھن کا استعمال اس کی بڑی وجہ ہے۔ قابل تجدید توانائی سستی، صاف اور لامحدود ہے اور اس کی بدولت ماحول کو زہرآلود کیے بغیر اور زمین کا گلا گھونٹے بغیر دنیا کی بڑھتی ہوئی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔
انہوں نے معدنی ایندھن نکالنے والی کمپنیوں اور ان کے سرپرستوں پر زور دیا کہ وہ اپنے بے پایاں وسائل کو قابل تجدید توانائی کا انقلاب لانے کے لیے استعمال کریں۔ انہوں نے دبئی میں جاری ‘کاپ 28’ کے رہنماؤں سے بھی کہا کہ وہ 1.5 ڈگری کے ہدف کی مطابقت سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بڑے پیمانے پر کمی لائیں۔
سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ یہ موسمیاتی استحکام ہی نہیں بلکہ معاشی استحکام کی جانب واحد راستہ بھی ہے۔
انہوں نے کثیرفریقی بینکوں سے کہا کہ وہ اپنے کاروباری نمونے میں تبدیلیاں لائیں اور ترقی پذیر ممالک کو سستے داموں نجی سرمایہ مہیا کریں۔ اس طرح انہیں موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات اور پائیدار ترقی کے اہداف پر خرچ کرنے میں مدد ملے گی۔
UN Photo/Elma Okic مصنوعی ذہانت موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
جدید ٹیکنالوجی: خطرات اور فوائد
انتونیو گوتیرش نے نئی ٹیکنالوجی جیسا کہ تخلیقی مصنوعی ذہانت سے لاحق خطرات کا تذکرہ بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹیکنالوجی دنیا کو درپیش کئی مسائل کا حل ہے تاہم موزوں ضابطوں کے بغیر یہ دنیا کو شدید مشکلات سے دوچار بھی کر سکتی ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مصنوعی ذہانت نفرت پر مبنی اظہار اور تقسیم کو تیزی سے پھیلا رہی ہے، اس کے ذریعے لوگوں کی نجی معلومات تک غیرقانونی رسائی حاصل کی جا رہی ہے، اس سے وسیع پیمانے پر نگرانی کا کام لیا جا رہا ہے اور یہ بڑے پیمانے پر عدم مساوات کو بڑھاوا دے رہی ہے۔
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ مصنوعی ذہانت سے لاحق ان مسائل پر قابو پانے کے لیے اقوام متحدہ میں کثیرفریقی اعلیٰ سطحی بورڈ قائم کیا گیا ہے۔ یہ بورڈ رواں سال کے آخر تک اپنی ابتدائی سفارشات پیش کرے گا۔
اس بورڈ کا اجلاس گزشتہ ہفتے نیویارک میں ہوا تھا۔
مستقبل کی کانفرنس
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ عالمی نظام میں اصلاحات کی بنیاد انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی اقدار پر ہونی چاہیے۔آئندہ برس ستمبر میں ہونے والی مستقبل کی کانفرنس اس حوالے سے اہم فیصلوں کا ایسا موقع ہو گی جو کئی نسلوں کے بعد آتا ہے۔
انہوں نے کانفرنس کے لیے رکن ممالک کو تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ انہیں تین نکاتی ایجنڈے کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔
اس ایجنڈے کے نقاط درج ذیل ہیں:
- ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے لاحق خدشات میں کمی لانے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ‘عالمگیر ڈیجیٹل معاہدہ’۔
- عالمی مالیاتی نظام میں اصلاحات، جن سے ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں کو تعلیم، صحت، نوکریوں اور لوگوں کے سماجی تحفظ پر سرمایہ کاری میں مدد ملے۔
- سلامتی کونسل میں اصلاحات اور امن کے لیے مجوزہ نیا ایجنڈا، جس سے تنازعات کی روک تھام اور ان کے حل، مساوات اور انصاف یقینی بنانے، ارضی سیاسی تعلقات کو ازسرنو متوازن بنانے اور ترقی پذیر ممالک کو بین الاقوامی سطح پر موثر آواز اٹھانے کا موقع ملے۔
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اب مشترکہ مستقبل تعمیر کرنے، متحدہ حیثیت سے مسائل کے حل نکالنے اور دنیا کو بہتری کے لیے تبدیل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔