جاوےدا ختر
سعود ی عرب مےں کام کرنے والے لاکھوں ہندوستانےوں سمےت دےگر ملکوں کے شہرےوں کے لےے اےک اہم خوشخبری ہے۔ سعودی حکومت نے گزشتہ ہفتے غیرملکی ورکروں پر عاید میعادی ملازمت کی پابندیوں کو نرم کرنے اور ملک میں عشروں سے نافذ کفالہ نظام میں بہتری لانے کے لیے لیبر اصلاحات کا اعلان کیا ہے۔
نجی شعبے میں نیا اصلاح شدہ کفالہ نظام 14مارچ 2021ءسے نافذ العمل ہوگا۔سعودی عرب کے نائب وزیر برائے انسانی وسائل اور سماجی ترقی نے ےہ اعلان کرتے ہوئے کہاکہ ”نئے نظام کا مقصد مملکت کی لیبر مارکیٹ کو پُرکشش بنانا ہے۔اس کے تحت غیرملکی ورکروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ملازمت کو تبدیل کرنے کا حق دیا جارہا ہے اور وہ اب اپنے کفیل کی اجازت کے بغیر بھی ملک چھوڑ کر جاسکیں گے۔“
سعودی عرب مےں پندرہ لاکھ سے زائد ہندوستانی ملازمت کرتے ہےں۔ان مےں سے بےشتر معمولی مزدوری پےشہ ہےں اور ان کے استحصال کی خبرےں اکثر وبےشتر سننے کو ملتی رہتی ہےں۔
کفالہ سسٹم کےا ہے؟
سعودی عرب میں اس وقت مروج کفالہ نظام کے تحت غیرملکی ورکر صرف ایک کفیل(مالک) کے ہاں ہی ملازمت کرسکتا ہے۔ سعودی عرب میں پچھلے سات عشروں سے کفالہ نظام نافذ العمل ہے۔کفالہ کے نظام کا اطلاق خلیجی ممالک میں کام کرنے والے غیر ملکی کارکنوں پر ہوتا ہے ۔ اس کے تحت کسی بھی خلیجی ملک میں کام کرنے کے لیے کارکن کے لیے ایک کفیل یا سپانسر کا ہونا ضروری ہے جو اس کے رہائش اور ملازمت کے معاملات کا ذمہ دار ہوتا ہے۔اپنی ملازمت کے آغاز میں غیرملکی کارکن اپنا پاسپورٹ اور تمام تر شناختی دستاویزات اپنے کفیل کے پاس جمع کرانے کا پابند ہوتا ہے۔اس نظام کا اطلاق مقامی عرب آبادی کے گھروں میں کام کرنے والے ذاتی ملازمین سے لے کر بڑی بڑی کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین پر ہوتا ہے۔
اس نظام کے تحت کوئی بھی تارکِ وطن ورکر اپنے کفیل کی اجازت کے بغیر اپنی ملازمت تبدیل نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہ اپنے کفیل کی اجازت کے بغیر ملک چھوڑ سکتا ہے۔آجر ہی ایسے ملازمین کے ویزے اور قانونی حیثیت کا ذمے دار ہوتا ہے۔اس نظام کو اکثر بے لچک ہونے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
استحصال کی شکاےتےں
اےسی شکاےتےں اکثر سامنے آتی رہتی ہےں کہ بعض کفیل اپنے کارکنوں سے غلاموں جیسے سلوک کرتے ہیں۔کفیلوں کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں میں تنخواہ کا وقت پر ادا نہ کیا جانا، گالی گلوچ، مارپیٹ اور کارکنوں پر لگائی جانے والی ناجائز پابندیاں قابلِ ذکر ہیں۔ کفالہ کے نظام کے تحت سب سے زیادہ پیچیدگیاں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب کارکن اپنے کفیل کو بتائے بغیر کام سے غیر حاضر ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں کارکن کی حیثیت ایک مجرم کی سی ہوتی ہے اور پولیس سمیت تمام سرکاری اداروں سے چھپ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔ انھیں اکثر خلیجی ممالک کے عدالتی نظام سے بروقت انصاف نہیں ملتا باوجود اس کے کہ وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں کہ ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور کفیل نے ان سے ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔کارکن کو عدالتی کارروائی کے دوران کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور اگر وہ غیر قانونی طور پر چوری چھپے کام کریں تو ان کی پوزیشن مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے۔
نئے نظام کا فائدہ
نئے اقدام کے تحت آجروں اور اجیروں(Employer and Employee) کے درمیان ملازمتی معاہدوں کی سعودی حکومت سے تصدیق کرانا ہوگی اور تارک وطن ورکر ایک ای گورنمنٹ پورٹل کے ذریعے براہ راست خدمات کے حصول کے لیے درخواست دے سکیں گے اور انھیں اپنے آجر سے منظوری لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
نئے قانون کے تحت آجروں اور ایسے غیرملکی تارکین وطن ورکروں کے درمیان تعلق داری محدود ہوکر رہ جائے گی جو تعمیرات کے شعبے میں کام کررہے ہیں یا گھریلو ملازمین کے طور پر کام کرتے ہیں۔کفالہ نظام کے خاتمے سے تارکین وطن ورکروں کو داخلی اور خارجی ویزے کے حصول میں آزادی حاصل ہوجائے گی۔وہ کسی کفیل کے بغیر اپنے پاسپورٹ پر سعودی عرب سے خروج (EXIT)کے لیے مہر لگواسکیں گے ۔ نیز کسی کفیل کی منظوری کے بغیر دوسری ملازمت حاصل کر سکیں گے۔ تارکینِ وطن ورکروں کو اس نظام کے خاتمے سے نقل وحرکت کی بھی آزادی حاصل ہوگی۔
دےگر خلےجی ملکوں مےں بھی کفالہ نظام
خلیجی عرب ممالک میں 1950ءکے عشرے میں تیل دریافت ہونے کے بعد غیرملکی تارکین وطن کو مختلف شعبوں میں ملازمتیں دینے کی راہیں کھلی تھیں تاکہ وہ ان ممالک کی ترقی کے عمل میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ان ممالک نے تب کفالہ کا نظام متعارف کرایا تھا۔
اس وقت سعودی عرب کے علاوہ بحرین، کویت، عُمان، قطر اور متحدہ عرب امارات میں بھی کفالہ کا نظام مروج ہے۔عُمان، بحرین اور قطر نے ماضی قریب میں اس نظام کے بعض حصوں کی تنسیخ کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ خلیجی عرب ممالک سے باہر اردن اور لبنان میں بھی گھریلو ملازمین کے لیے کفالہ جےساہی نظام رائج ہے۔
سعودی عرب کا یہ نیا اقدام ویژن 2030ءکے تحت رو بہ عمل لائی جانے والی اصلاحات کا حصہ ہے۔اس ویژن کے تحت سعودی معیشت کا تیل پر انحصار کم کرنے کے لیے دور رس نتائج کی حامل متنوع اصلاحات کی جارہی ہیں۔
سعودی عرب کے انسانی وسائل اور سماجی ترقی کے وزیر عبداللہ بن نصر ابوالثونین کا کہنا ہے کہ اس نئے اقدام کے ذریعے وہ ایک پُرکشش لیبر مارکیٹ بنانا چاہتے ہیں اورنئے کفالہ نظام کے تحت اعلیٰ ہُنرمند افرادی قوت کو راغب کرنے میں مدد ملے گی اور اس سے ویژن 2030ءکے اہداف اور مقاصد بھی حاصل ہوسکیں گے۔ (اے اےم اےن)