اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بتایا ہے کہ روس نے بحیرہ اسود کے راستے اناج کی ترسیل کے لئے اقوام متحدہ کی ثالثی میں طے پانے والے اقدام میں مزید 60 روز تک شامل رہنے کی تصدیق کی ہے۔
سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے روزانہ کی پریس بریفنگ میں بات کرتے ہوئے روس کی جانب سے اس اقدام میں اپنی شمولیت جاری رکھنے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا۔
اس اقدام کی بدولت یوکرین سے 30 ملین ٹن سے زیادہ اناج اور دیگر خوراک کی بحیرہ اسود کی بندرگاہوں کے ذریعے محفوظ طور سے برآمد میں مدد ملی ہے۔ اس اقدام کا ایک اور مقصد باہمی مفاہمت کی یادداشت کے ذریعے روس سے خوراک اور کھادوں کی ترسیل یقینی بنانا ہے۔
اس اقدام کا آغاز گزشتہ برس جولائی میں ہوا تھا اور اسے ایک مشترکہ تعاون مرکز (جے سی سی) کے ذریعے چلایا جاتا ہے جس کے عملے میں روس، یوکرین، اقوام متحدہ اور ترکیہ کے نمائندے شامل ہیں اور اس کا ہیڈکوارٹر استنبول میں واقع ہے۔
‘دنیا کے لئے اچھی خبر’
انتونیو گوتیرش نے کہا کہ روس کی جانب سے اس اقدام میں اپنی شمولیت برقرار رکھنے کا فیصلہ “دنیا کے لئے اچھی خبر” ہے تاہم بہت سے مسائل اب بھی حل طلب ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ “روس، یوکرین، ترکیہ اور اقوام متحدہ کے نمائندے ان مسائل پر بات چیت جاری رکھیں گے۔ مجھے امید ہے کہ ہم اس اقدام کو بہتر بنانے، اسے وسعت دینے اور اس کی معیاد بڑھانے کے لئے ایک جامع سمجھوتے پر پہنچ جائیں گے جیسا کہ میں نے تینوں ممالک کے صدور کے نام ایک حالیہ خط میں لکھا ہے۔”
انتونیو گوتیرش نے اس معاہدے میں توسیع کے لئے ہونے والی بات چیت میں شریک تمام فریقین کو سراہا جنہوں نے اس ضمن میں “تعمیری شمولیت کے جذبے” کے تحت کام کیا۔
انہوں نے جے سی سی کے ذریعے “اقوام متحدہ کے ساتھ مستقل ہم آہنگی میں کام کرنے” پر صدر رجب طیب اردوآن اور ترکیہ کی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔
غذائی تحفظ کے لیے اہمیت
انہوں نے کہا کہ یہ اقدام اور اقوام متحدہ اور روس کے مابین کھادوں اور خوراک کی ترسیل کے حوالے سے باہمی مفاہمت کی یادداشت عالمگیر غذائی تحفظ کے لئے بہت اہم ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ “یوکرین اور روس کی پیداوار سے دنیا کو خوراک میسر آتی ہے اور اس معاہدے کی بدولت دنیا کے انتہائی بدحال لوگوں کو ضروری غذا مہیا کی گئی ہے۔ اس میں ڈبلیو ایف پی کے خصوصی بحری جہاز کے ذریعے حال ہی میں یوکرین سے برآمد کی جانے والی 30,000 ٹن گندم بھی شامل ہے جو سوڈان میں بھوکے لوگوں کے لئے بھیجی جا رہی ہے۔”
انہوں نے کہا کہ “دنیا بھر میں خوراک پہنچانے کا یہ اقدام بہت اہم ہے کیونکہ ہم تاحال رہن سہن کے اخراجات میں اضافے کے ریکارڈ توڑ بحران میں پھنسے ہیں۔ گزشتہ برس منڈیوں میں استحکام آیا، معاشی اتار چڑھاؤ میں کمی آئی اور ہم نے عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں 20 فیصد تک کمی ہوتے دیکھی ہے۔
امید کی کرن
انہوں ںے کہا کہ معاہدے اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ “تاریک ترین دور میں امید کی کرن اور ہر ایک کو فائدہ پہنچانے والے طریقے ڈھونڈںے کے مواقع ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔”
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ انہیں امید ہے یوکرین اور روس سے خوراک اور کھاد کی برآمدات “محفوظ اور یقینی طور سے” اشیا کی ترسیل کے عالمگیر سلسلے کا حصہ بنیں گی جس کا تصور اس اقدام کے تمام فریقین نے کیا ہے۔”
اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ ان دونوں معاہدوں پر عملدرآمد میں تعاون کرنے کا عزم رکھتا ہے۔