اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) کی تازہ ترین رپورٹ نے دنیا کے ایک ایسے بحران کو اجاگر کیا ہے جو اگرچہ برسوں سے زیرِ بحث ہے لیکن اب بھی حل سے کوسوں دور ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کی ایک چوتھائی آبادی یعنی تقریباً 2.1 ارب افراد آج بھی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، جبکہ نکاسی آب اور صحت و صفائی کی سہولیات کی کمی اربوں انسانوں کی زندگیوں کو براہِ راست متاثر کر رہی ہے۔ یہ اعداد و شمار صرف ایک سائنسی یا تکنیکی مسئلے کی عکاسی نہیں کرتے بلکہ یہ انسانی حقوق، وقار اور پائیدار ترقی کی راہ میں کھڑی سب سے بڑی رکاوٹوں میں سے ایک ہیں۔

عالمی ہفتہ آب کے موقع پر پیش کی گئی اس جائزہ رپورٹ نے واضح کیا کہ صاف پانی کی کمی صرف ترقی پذیر یا غریب ممالک تک محدود نہیں بلکہ کئی متوسط اور ترقی یافتہ خطے بھی اس سے متاثر ہیں۔ تاہم سب سے زیادہ بوجھ وہ طبقات اٹھا رہے ہیں جو کم آمدنی کے حامل، دیہی علاقوں یا تنازعات سے دوچار خطوں میں بستے ہیں۔ وہاں بچے، خواتین، اقلیتیں اور قدیم مقامی کمیونٹیز سب سے زیادہ مشکلات جھیل رہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اگرچہ سال 2000 کے بعد سے کچھ بہتری دیکھنے میں آئی ہے لیکن دنیا اب بھی پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) سے بہت پیچھے ہے۔

پانی اور انسانی بقا کا چیلنج

ڈبلیو ایچ او کے ماہرین نے زور دیا ہے کہ صاف پانی، نکاسی آب اور حفظانِ صحت کوئی مراعات نہیں بلکہ بنیادی انسانی حقوق ہیں۔ ان کے بغیر نہ صرف بیماریوں کا پھیلاؤ تیز ہوتا ہے بلکہ تعلیم، روزگار اور سماجی شمولیت بھی متاثر ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 3.4 ارب افراد کو آج بھی محفوظ نکاسی آب کی سہولیات دستیاب نہیں جبکہ 354 ملین افراد بیت الخلا جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہیں۔ مزید یہ کہ 1.7 ارب لوگوں کو گھروں میں صحت و صفائی کی بنیادی سہولیات میسر نہیں، جن میں 611 ملین ایسے ہیں جو کسی بھی قسم کی سہولت کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔

کم ترقی یافتہ ممالک میں یہ بحران دو سے تین گنا زیادہ شدید ہے۔ وہاں پانی اور نکاسی آب کی کمی براہِ راست صحت عامہ کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ رپورٹ نے یہ بھی بتایا کہ غریب اور تنازعات زدہ خطوں میں پینے کے صاف پانی تک رسائی نہ ہونے کی شرح دیگر خطوں کے مقابلے میں تقریباً 38 فیصد زیادہ ہے۔ اگرچہ دیہی علاقوں میں کچھ مثبت پیش رفت ہوئی ہے اور 2015 سے 2024 کے درمیان صاف پانی کی دستیابی میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے، لیکن شہری علاقوں میں صورتحال تقریباً جوں کی توں ہے۔

رپورٹ میں خواتین اور لڑکیوں پر اس بحران کے اثرات پر خاص زور دیا گیا ہے۔ بیشتر ممالک میں پانی بھرنے کی ذمہ داری انہی کے کندھوں پر ہے۔ افریقہ اور جنوبی ایشیا کے کئی خطوں میں خواتین اور لڑکیاں روزانہ اوسطاً 30 منٹ زیادہ صرف کرتی ہیں صرف پانی لانے پر۔ اس کے علاوہ ایامِ ماہواری کے دوران مناسب سہولتوں کی کمی ان کی تعلیم، روزگار اور سماجی شرکت پر براہِ راست اثر ڈالتی ہے۔

پائیدار حل کی تلاش

ماہرین کے مطابق اگر دنیا نے 2030 تک سبھی انسانوں کو پینے کے صاف پانی اور نکاسی آب کی سہولیات فراہم کرنے کا ہدف حاصل کرنا ہے تو موجودہ رفتار ناکافی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف نے خبردار کیا ہے کہ جب تک ہر بچے کو صاف پانی اور صحت و صفائی کی سہولت یقینی نہیں بنائی جاتی، بیماریوں، تعلیمی پسماندگی اور غربت کے دائرے کو توڑنا ناممکن ہوگا۔

اس مسئلے کا تعلق محض صحت یا صفائی تک محدود نہیں بلکہ یہ توانائی، خوراک، ماحولیاتی نظام اور عالمی معیشت سے براہِ راست جڑا ہوا ہے۔ سویڈن کے شہر اسٹاک ہوم میں جاری عالمی ہفتہ آب کانفرنس میں بھی اسی ربط کو اجاگر کیا گیا۔ ماہرین نے کہا کہ پانی کا محفوظ اور پائیدار انتظام موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے بھی ناگزیر ہے۔

دنیا کے بعض ممالک نے اس سمت میں قابلِ تقلید اقدامات کیے ہیں۔ بھوٹان، روانڈا اور سعودی عرب جیسے ممالک نے آبی وسائل کے انتظام میں جدید طریقوں اور کمیونٹی کی شمولیت کے ذریعے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان کی مثالیں دیگر ترقی پذیر ممالک کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔

تاہم اصل مسئلہ مالی وسائل کی کمی ہے۔ ڈبلیو ایچ او اور یو این واٹر نے اس بات پر زور دیا ہے کہ عالمی برادری، عطیہ دہندگان اور نجی شعبے کو مل کر اس بحران سے نمٹنے کے لیے سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ ناکافی فنڈنگ نہ صرف موجودہ سہولیات کو متاثر کر رہی ہے بلکہ مستقبل کے اہداف کے حصول کو بھی مشکل بنا رہی ہے۔

صاف پانی اور صحت و صفائی کی سہولیات کی کمی ایک ایسا عالمی چیلنج ہے جو ہر شخص کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے، مگر سب سے زیادہ قیمت دنیا کے غریب اور پسے ہوئے طبقات ادا کر رہے ہیں۔ اگر عالمی برادری نے فوری اور جرات مندانہ اقدامات نہ کیے تو نہ صرف پائیدار ترقی کے اہداف متاثر ہوں گے بلکہ آنے والی نسلوں کی صحت اور مستقبل بھی دائمی خطرے میں پڑ جائے گا۔ پانی انسان کی بقا کا بنیادی ذریعہ ہے اور اس کی مساوی فراہمی ہی دنیا کو محفوظ، صحت مند اور خوشحال بنانے کی ضمانت دے سکتی ہے۔