خشک سالی سے زندگیوں اور روزگار پر غیرمعمولی اثرات مرتب ہو رہے ہیں
عندلیب اختر
اقوام متحدہ کے ذریعہ جاری کردہ ایک تازہ ترین رپورٹ میں خشک سالی کے واقعات او ر اسکی شدت میں اضافہ کے تئیں انتباہ کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کے پانی کے ذخائر میں کمی آ رہی ہے اور فصلوں کی پیداوار محدود ہوتی جا رہی ہے۔ حیاتیاتی تنوع کا نقصان اور قحط کا پھیلاؤ غذائی قلت کا سبب بن رہا ہے۔
زمینی انحطاط سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے کنونشن (یو این سی سی ڈی) نے بتایا ہے کہ انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں آنے والی خشک سالی سے زندگیوں اور روزگار پر غیرمعمولی اثرات مرتب ہو رہے ہیں جن پر قابو پانے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے۔یو این سی سی ڈی نے عالمی سطح پر خشک سالی کا مقابلہ کرنے کے لیے قدرتی آفات کے مقابلے کی تیاری اور ان سے بروقت آگاہی کے نظام قائم کرنے پر بھی زور دیا ہے۔
‘یو این سی سی ڈی’ کے ایگزیکٹو سیکرٹری ابراہم تھیا نے اس مسئلے پر فوری قابو پانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دیگر قدرتی آفات کے برعکس خشک سالی خاموشی سے آتی ہے۔ اسی لیے عموماً یہ مسئلہ عوامی اور سیاسی سطح پر زیادہ توجہ حاصل نہیں کر پاتا۔
یہ رپورٹ ایسے وقت سامنے آئی ہے جب اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی کانفرنس ‘کاپ 28’ دبئی میں جاری ہے۔ اس کانفرنس میں دیگر امور کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں خشک سالی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجوہات اور ان کا تدارک بھی زیربحث ہے۔
زمین کا پائیدار انتظام
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ خشک سالی کے مقابل استحکام لانے کے لیے زمین کی بحالی اور اس کا پائیدار انتظام ضروری ہے۔اس مقصد کے لیے کھیتی باڑی کے ایسے طریقے اختیار کرنا ضروری ہیں جو فطرت سے ہم آہنگ ہوں۔ان میں خشک سالی کے خلاف مزاحم فصلوں کی کاشت، آبپاشی کے موثر طریقے اور زمین کے تحفظ کے اقدامات شامل ہیں۔ ایسے طریقوں سے فصلوں اور آمدنی پر خشک سالی کے اثرات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔اس میں پانی کی فراہمی کے پائیدار نطام، اسے محفوظ رکھنے کے اقدامات اور متعلقہ ٹیکنالوجی کو ترقی دینے پر سرمایہ کاری بھی شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق، موسمیاتی نگرانی، معلومات اکٹھی کرنے اور خطرات کا انداز لگانے سے بھی خشک سالی کا مقابلہ کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس طرح خشک سالی کے اثرات کو محدود رکھنا بھی ممکن ہے۔ اس ضمن میں بین الاقوامی تعاون، معلومات کا تبادلہ اور ماحولیاتی و سماجی انصاف بھی اہمیت رکھتے ہیں۔’یو این سی سی ڈی’ نے عالمی سطح پر خشک سالی کا مقابلہ کرنے کے لیے قدرتی آفات کے مقابلے کی تیاری اور ان سے بروقت آگاہی کے نظام قائم کرنے پر بھی زور دیا ہے۔
نقصان دہ میتھین گیس بھی موسمیاتی تبدیلی کا سبب بن رہی ہے۔
و اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) نے میتھین کے بارے میں انتباہ اور اس کے اخراج پر قابو پانے کے نظام (مارس) کی تحقیقی رپورٹ بھی جاری کی ہے۔ یہ نظام مصنوعی سیارچوں کے ذریعے فضا میں میتھین کی موجودگی کی نگرانی کرتا ہے۔ اس کا مقصد حکومتوں کو انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں اس گیس کے اخراج پر قابو پانے میں مدد دینا ہے۔ میتھین کاربن ڈائی آکسائیڈ سے 80 گنا زیادہ طاقتور گیس ہے اور عالمی حدت میں ایک تہائی اضافہ اسی کے باعث ہو رہا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ فضا میں نصف سے زیادہ میتھین کے اخراج کی ذمہ داری زراعت، کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے اور معدنی ایندھن کے شعبوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس حوالے سے حالیہ انسانی سرگرمیوں کو دیکھا جائے تو 2030 تک فضا میں میتھین کی سطح میں 13 فیصد اضافہ ہو جائے گا۔ پیرس معاہدے کے اہداف کی رو سے عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری کی حد میں رکھنے کے لیے 2030 تک فضا میں میتھین کی مقدار میں 60 فیصد کمی لانا ضروری ہے۔
‘یو این ای پی’ کے مطابق آج فضا میں میتھین گیس کی مقدار تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ اس سے فضائی معیار اور انسانی صحت پر سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں زرعی غذائی نظام اہم
دریں اثنا اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او) نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو دور رکھنے میں زرعی غذائی نظام کا اہم کردار ہے اور اس شعبے میں نقصان و تباہی کے ازالے کے لیے مزید مالی وسائل مہیا کرنا ہوں گے۔’ایف اے او’ کی ایک نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موجودہ موسمیاتی بحران ضرورت کے مطابق خوراک پیدا کرنے کے معاملے میں دنیا کی صلاحیت پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ اس طرح پانی، مٹی اور حیاتیاتی تنوع پر کئی طرح کے منفی اثرات اور شدید موسمی واقعات کی بڑھتی ہوئی تعداد سے غذائی عدم تحفظ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ادارے کے ڈائریکٹر جنرل کو ڈونگ یو کا کہنا ہے کہ اس شعبے میں استحکام لانے، موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے، اس کے اثرات کو کم سے کم رکھنے اور غذائی تحفظ کے طریقے پہلے ہی موجود ہیں۔ انہوں نے یہ بات ‘کاپ 28’ میں رہنماؤں کے پہلے اجلاس سے خطاب میں کہی جو خوراک و زراعت کے لیے مخصوص تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے جن سے مالی وسائل کی قلت کو دور کیا جا سکے اور ان کی سب سے زیادہ ضرورت مند طبقات کو فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ اس میں چھوٹے کسان خاص طور پر اہم ہیں۔
کم وسائل زیادہ پیداوار
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے زرعی پیداوار، مویشیوں کی افادیت اور غذائی پیداوار کی حیثیت سے مچھلیوں اور آبی حیات پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔ زرعی غذا کے نظام اور ان کے فروغ میں مدد دینے اور ان پر انحصار کرنے والے لوگ موسمیاتی تبدیلی سے بڑے پیمانے پر نقصان اور تباہی کا سامنا کر رہے ہیں۔تاہم اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے عالمی سطح پر مالی وسائل کی فراہمی میں اضافے کے باوجود اس شعبے کو زیادہ مدد نہیں مل رہی۔ 2021 میں ایسے مالی وسائل کا 20 فیصد سے بھی کم زرعی غذائی شعبے کے حصے میں آیا تھا۔
کو ڈونگ یو نے کہا کہ دنیا کو کم وسائل خرچ کر کے زیادہ پیداوار حاصل کرنا ہو گی۔ زرعی غذا کے نظام کو مزید موثر، مشمولہ، مستحکم اور پائیدار بنانا ہو گا۔ اس طرح خوراک کی دستیابی، اس تک رسائی اور اس کے سستے داموں حصول میں مدد ملے گی اور پائیدار ترقی کے تمام اہداف تک پہنچا جا سکے گا۔