پٹنہ، 21ستمبر
سابق معزز رکن کل ہند بیک وارڈ کمیشن و سابق وزیر حکومت بہار اور آل انڈیا نیشنل مومن کانفرنس کے صدر جناب ڈاکٹر شکیل الزماں انصاری کی صدارت میں آج ایک خصوصی میٹنگ نورانی باغ، عالم گنج، پٹنہ میں واقع ان کے رہائشی دفتر میں منعقد کی گئی۔ اس میٹنگ میں مرکزی حکومت کے وقف بل 2024 پر تفصیلی غور و خوض کیا گیا اور اس بل کے ناقابل قبول نکات پر شدید اعتراضات کئے گئے۔

میٹنگ میں خصوصی طور پر جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے آل انڈیا پسماندہ محاذ کے نام پر بلائے گئے نمائندوں کی شرکت پر بھی سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ شرکاء نے واضح کیا کہ ان افراد کا پسماندہ مسلمانوں سے کوئی حقیقی تعلق نہیں ہے اور یہ وہ ضمیر فروش لوگ ہیں جو آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ پسماندہ مسلمانوں کے درمیان ان کی کوئی وقعت نہیں، لہٰذا یہ افراد مسلمانوں کے حقیقی نمائندے نہیں ہو سکتے۔

جناب شکیل الزماں انصاری نے کہا کہ پسماندہ مسلمانوں کے نام پر ایسے افراد کو بلایا گیا تھا جن کی نہ تو کوئی عوامی حمایت ہے اور نہ ہی یہ مسلمانوں کے مسائل کی نمائندگی کرنے کے اہل ہیں۔ یہ لوگ دراصل مسلمانوں کے حقوق کو بیچنے والے ہیں اور اپنے ذاتی مفادات سادھنے کے لیے حکومت کے حکم کی بجا میں مصروف ہیں۔

میٹنگ میں وقف بل کے درج ذیل نکات پر بھی اعتراضات کئے گئے:

1-وقف بذریعہ استعمال کا خاتمہ: وقف جائیدادوں کی صدیوں پرانی حیثیت ختم کرنے کا منصوبہ، جس کے تحت مساجد، مدارس اور قبرستانوں کی وقف جائیداد کی حیثیت کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

2-غیر مسلم نمائندوں کی شمولیت: وقف کونسل اور بورڈ میں غیر مسلم اراکین کی شمولیت، جو کہ مسلمانوں کے شرعی اصولوں کے خلاف ہے اور وقف املاک کے مؤثر انتظام میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

3-مرکزی حکومت کا زیادہ کنٹرول: وقف املاک پر مرکزی حکومت کا اضافی کنٹرول اور مقامی و ریاستی سطح پر مسلمانوں کے حقوق کی کمی۔

4-چیف ایگزیکٹو افسر کی تعیناتی: وقف بورڈ کے چیف ایگزیکٹو افسر کے مسلمان ہونے کی لازمی شرط ختم کرنے پر اعتراض، جو وقف کے معاملات میں غیر ضروری حکومتی مداخلت کی راہ ہموار کرے گا۔

جناب شکیل الزماں انصاری نے مزید کہا کہ ایسے ضمیر فروش افراد کو مسلمانوں کا نمائندہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ حکومت کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے تاکہ مسلمانوں کے اصل مسائل اور مطالبات کو دبایا جا سکے اور وقف املاک کو نقصان پہنچایا جا سکے۔

میٹنگ کے شرکاء نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ وقف بل 2024 کو واپس لے اور پسماندہ مسلمانوں کی اصل قیادت کو مسلم مسائل کے حل کے سلسلے میں کسی بھی کمیٹی یا میٹنگ میں نمائندگی نہ دے اور ایسے ضمیر فروش عناصر کو مسلمانوں کے حقیقی نمائندے کے طور پر پیش کرنے سے باز آے۔

(پریس ریلیز)