بڑھتی ہوئی تباہی، انسانی دکھ اور مستقبل کے تقاضے

عندلیب اختر

بھارت اس وقت شدید سیلابی بحران سے گزر رہا ہے۔ مون سون کی غیر معمولی بارشوں نے نہ صرف شمالی اور شمال مغربی ریاستوں کو متاثر کیا ہے بلکہ بڑے شہروں میں بھی پانی جمع ہونے اور نظامِ زندگی کے مفلوج ہونے کے مناظر سامنے آئے ہیں۔ پنجاب، ہماچل پردیش، جموں و کشمیر اور اتراکھنڈ میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں اور املاک کا نقصان ہوا ہے۔ ساتھ ہی دہلی، ممبئی، پٹنہ اور بنگلورو جیسے شہروں میں بھی شہری زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

دریاؤں میں طغیانی، زمین کھسکنے کے واقعات اور شہری علاقوں میں ناقص نکاسیِ آب نے صورتِ حال کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ پنجاب، ہماچل پردیش، جموں و کشمیر اور اتراکھنڈ میں سب سے زیادہ تباہی دیکھنے کو ملی، جبکہ دہلی، ممبئی، پٹنہ اور بنگلورو جیسے بڑے شہروں کی زندگی بھی بری طرح متاثر ہوئی۔

سیلاب کی بنیادی وجہ بارشوں کی شدت اور غیر معمولی تسلسل ہے، لیکن صرف قدرتی عوامل ہی اس کے ذمے دار نہیں۔ انسانی سرگرمیوں نے بھی حالات کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جنگلات کی بے تحاشہ کٹائی، بے قابو تعمیرات اور دریاؤں کے کناروں پر تجاوزات نے پانی کے قدرتی بہاؤ کو روکا۔ پہاڑی علاقوں میں زمین بارش کو جذب کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھی ہے اور یوں بارش کا پانی سیدھا نیچے کی بستیوں کو ڈبوتا ہے۔ دوسری طرف شہروں میں ناقص ڈرینیج سسٹم نے تھوڑی سی بارش کو بھی آفت میں بدل دیا۔ یہ سب عوامل مل کر ایک ایسی تصویر پیش کرتے ہیں جس میں قدرتی آفت انسانی غفلت سے بڑھ کر تباہ کن بن گئی۔

پنجاب کی صورتِ حال سب سے زیادہ سنگین ہے۔ زرعی ریاست ہونے کے باعث یہاں کا نقصان صرف مقامی نہیں بلکہ قومی سطح پر خوراک کی فراہمی کو متاثر کرے گا۔ رپورٹوں کے مطابق چار لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبے پر کھڑی فصلیں پانی میں بہہ گئیں۔ کسانوں نے جو بیج ڈالا اور فصل سنبھالی تھی، وہ چند دنوں میں ضائع ہو گئی۔ گندم کے بعد چاول اور کپاس کی تباہی نے کسانوں کو کمر توڑ معاشی نقصان پہنچایا ہے۔ دیہاتوں میں گھروں کے ڈوبنے اور مویشیوں کے بہہ جانے سے دیہی معیشت مزید برباد ہو گئی ہے۔

ہماچل پردیش میں تباہی کی نوعیت مختلف ہے۔ یہاں شدید بارشوں کے ساتھ زمین کھسکنے کے واقعات نے جانی و مالی نقصان بڑھا دیا۔ سیاحتی مقامات جیسے شملہ، منالی اور کلو دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے پرکشش ہیں، مگر اب یہ مقامات کھنڈر کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ سڑکیں اور پل ٹوٹ جانے سے ہزاروں سیاح اور مقامی لوگ پھنس گئے۔ کئی مقامات پر بجلی اور پانی کی فراہمی مکمل طور پر معطل ہے، جبکہ موبائل نیٹ ورک بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا۔

کشمیر کی وادی میں جہلم ندی سمیت کئی دریا خطرناک سطح پر بہہ رہے ہیں۔ سری نگر اور جنوبی کشمیر کے اضلاع میں گھروں اور بازاروں میں پانی گھس گیا ہے۔ مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ سیاحت پر انحصار کرنے والے کاروبار بھی متاثر ہوئے ہیں۔ ہوٹل، ہاؤس بوٹس اور دیگر سہولیات بند ہونے سے روزگار کا بحران پیدا ہو گیا ہے۔ بارش اور ٹھنڈے موسم نے عوامی مشکلات کو مزید بڑھا دیا ہے اور ہزاروں لوگ ریلیف کیمپوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔

اتراکھنڈ میں یاترا پر سب سے زیادہ اثر پڑا ہے۔ چار دھام یاترا، جس پر ہر سال لاکھوں عقیدت مند آتے ہیں، اس بار بارش اور زمین کھسکنے کے باعث بند کرنی پڑی۔ کیدارناتھ اور بدری ناتھ جانے والے راستے بند ہو گئے، گاڑیاں اور یاتری ملبے تلے دب گئے۔ مقامی لوگوں کے مکانات اور چھوٹے کاروبار تباہ ہو گئے ہیں۔

یہ بحران صرف ریاستوں تک محدود نہیں رہا بلکہ بڑے شہروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گیا۔ دہلی میں یمنا ندی کے کنارے آباد بستیاں ڈوب گئیں، پرانے ریلوے پل پر پانی کے دباؤ نے ٹریفک اور ریل خدمات کو متاثر کیا۔ ممبئی میں بارش کے ساتھ ہی سڑکیں اور ریلوے ٹریک پانی میں ڈوب گئے، جس سے روزمرہ زندگی ٹھپ ہو گئی۔ پٹنہ میں گنگا کا پانی گھروں اور بازاروں تک پہنچ گیا، جس سے وبائی امراض کا خطرہ بڑھ گیا۔ بنگلورو میں آئی ٹی پارکس اور رہائشی علاقوں میں پانی بھرنے سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوئیں، بجلی اور انٹرنیٹ کی بار بار بندش نے معاشی نقصان پہنچایا۔

عوامی مشکلات انتہائی شدید ہیں۔ لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے بے دخل ہو گئے ہیں اور ریلیف کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ پینے کا صاف پانی اور کھانے پینے کی اشیاء کی کمی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ صحت عامہ پر بھی خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے، ڈائریا، ڈینگی اور ملیریا جیسے امراض تیزی سے پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی ہے کیونکہ اسکول بند ہیں، اور غریب طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے کیونکہ ان کے پاس دوبارہ کھڑا ہونے کے لیے وسائل موجود نہیں۔

اس پس منظر میں سوال یہ ہے کہ مستقبل میں اس تباہی سے بچنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ملک کو فوری اور طویل مدتی حکمتِ عملی دونوں پر توجہ دینی ہوگی۔ فوری طور پر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سیلاب کی وارننگ اور بروقت انخلا کا نظام بہتر بنانا ہوگا۔ ڈیموں اور بیراجوں کی مینجمنٹ میں شفاف پالیسی اپنانا ضروری ہے تاکہ پانی ذخیرہ کرنے اور چھوڑنے کا عمل منظم ہو۔ شہروں میں نکاسیِ آب کا نظام مکمل طور پر نئے سرے سے تیار کرنا ہوگا تاکہ بارش کا پانی جھیلوں اور سڑکوں پر نہ رکے۔ پہاڑی علاقوں میں شجرکاری کو فروغ دے کر زمین کی گرفت مضبوط بنانی ہوگی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مقامی سطح پر تربیت یافتہ رضاکار تیار کیے جائیں جو ہنگامی حالات میں بروقت مدد فراہم کر سکیں۔

بھارت کے حالیہ سیلاب نے یہ واضح کر دیا ہے کہ یہ صرف ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ انسانی غفلت اور ناقص منصوبہ بندی کا بھی نتیجہ ہے۔ پنجاب کے کھیتوں، ہماچل کے پہاڑوں، کشمیر کی وادیوں اور ملک کے بڑے شہروں کی تباہی ہمیں خبردار کر رہی ہے کہ اگر اب بھی اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے برسوں میں حالات مزید خراب ہوں گے۔ حکومت، عوام اور ماہرین کو مل کر ایک ایسی حکمتِ عملی بنانی ہوگی جو نہ صرف فوری ریلیف دے بلکہ مستقبل میں اس طرح کی آفات سے بچاؤ بھی ممکن بنائے۔