تحریر۔ عاقبہ بتول

ہم لوگوں نے زندگی کے رہن سہن کو اس قدر مشکل بنا لیا ہے اور بناوٹ کو ضرورت سے کہیں زیادہ اہم کر لیا ہے کہ بس بات بات پر زہنی مسائل کا شکارہو جاتے ہیں ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں ہماری کوشش ہوتی کہ بس اب کوئی سکون آور گولیاں ہوں ہم کھا لیں تا کہ سب جھنجٹوں سے جان چھڑا سکیں اور بے شمار لوگ ان دواوں کا ستعمال کرتے ہیں آپ یقین کیجئے کہ ان دواوں کا ستعمال دن بہ دن بڑھ رہاہے اور ہماراموڈ مزاج تو چشم زدن یوں خراب ہوتا ہے جیسے موڈ ہم نے چائینہ کالگوایا ہوبرداشت بالکل ناپیدہوگئی ہے ہمارا یہ رویہ ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ کیوں ہے؟ کیوں ہم کسی بڑے کی بات سننے کو تیار نہیں ہیں اور کسی کی کامیابی وکامرانی سے بھی لوگ حسد کا شکارہو جاتے کیا اللہ کی تقسیم پہ بھی ہمارا اعتقاد نہیں رہا ?

ہمیں بڑے دل سے اس بات کو قبول کرنا چاہیے کہ رب کی دین ہے وہ جسے چاہے نوازے مگر لوگ بلا وجہ حسد کی آگ میں جلنے لگتے ہیں دوسرے کی قابلیت اور طاقت سے پریشانی میں آجاتے ہیں اور جن لوگوں کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ وافرہے انکو بھی چاہیے کہ کسی حساب کتاب سے معاشرے میں چلیں بے جا اسراف سے اور دولت کے دکھاوے سے دوسروں کا جینا مشکل اور حرام نہ کر دیں خاص کر غریب خاندان کی لڑکیوں کی شادیاں جہیز نہ ہونے کے سبب ہو نہیں پاتیں حکمرانوں کو چاہیے کہ جہیز پہ پابندی لگائی جائے یہ کینسر اس غریب اور متوسط طبقے کو پاگل کر دے گا جہیز غریب کی بیٹی کی خوشی کھا گیا ہے متوسط طبقوں سے بیٹی بیاہنے کہ خوف سے مسکراہٹیں چھن گئی ہیں جو لڑکی کم جہیز لے کے جاتی ہے اسکا گھر نہیں بستا سسرال والے اسکی جان تک لینے سے گریز نہیں کرتے جہیز جیسی شے پر حکومت کی طرف سے سخت پابندی ہونی چاہیے اور خلاف ورزی پر بھاری جرمانے تاکہ لوگوں کو اس بات کا احساس دلوایا جا سکے کہ لڑکیاں خود بھی قیمتی ہوتی ہیں صرف قیمتی چیزیں سامان اور سونا چاندی ساتھ لانے پر ہی انہیں عزت نہ دیں بطور انسان اور گھر کے فرد کی حیثیت سے بھی انکی قدر کرنا سیکھیں

ایک بیٹی کی اہمیت کا اندازہ صرف اسکے والدین ہی کو ہوتا ہے کہ وہ کتنی قابل ہیس سسرال میں تو بس وہ شائد کام والی کی حیثیت سے ہی جاتی ہے اس رویے کو بدلنا ہے اپنی بہو کو بھی ویسی ہی اہمیت دیں جیسی بیٹی کو ہے اور پتہ نہیں ایسا کیوں ہے کہ ہمارے معاشرے میں جس گھر میں لڑکی جہیز نہیں لاتی بعض اوقات ان کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ محلے دار اور معاشرے والے منہ جوڑجوڑ کہانیاں گھڑنے لگتے ہیں اور اس طرح بھی گھرٹوٹنے لگتے ہیں اور والدین بیاہنے کہ بعد پھر بیٹی کو بسانے میں لگ جاتے ہیں اور کیا ہی بہترہو کہ ہم دوسروں کو دیکھنے کی بجائے انکی خامیوں پر نظر رکھنے کی بجائے اپنی اصلاح پہ توجہ دیں بیشک لوگ دکھاوا کرنے کو بہت اہمیت دیتے ہیں جب تعلیم اور تربیت کی کمی ہوگی اور کوئی ہنر کوئی خوبی نہیں ہوگی اور صرف جیب میں پیسہ ہی پیسہ ہوگا تو پھر انسان اسی کا دکھاوا کرے گا مطلب کہ جس کے پاس جو چیزہوگی وہ اسکا ہی دکھاوا کرے گا لہذا اپنی خوشیوں کو دل سے خوش ہو کر منائیں دوسروں کے رحم و کرم پہ نہ چھوڑیں دوہرے معیار سے خدارا باہر نکلیں اپنے اور دوسروں کے لیے مخلص رہیں ان بناوٹی اور دیکھا دیکھی کی چمک دمک میں مت پڑیں اپنی زندگی کو سادہ بنائیں تاکہ آپکی وجہ سے کوئی دوسرا احساس کمتری میں مبتلا نہ ھوجا ئے آپ کے اس احسن اقدام سے نہ صرف آپ کے لیے آسانیاں پیدا ہونگی بلکہ دوسروں کے لیے بھی آپ مشعل راہ کا کام کریں گے اور بناوٹ جیسے مرض سے ہمیں جس قدرہو سکے بچنا چاھیئے تاکہ ہم اپنی اصل کو پہچان سکیں حقیقی خوشی باعث سکون قلب میں ہوتی ہے جھوٹی بیکار اور دکھاوے کی مسرت سوائے پریشانی کے کچھ نہیں دیتی ہیں لہذا خود کو پہچانیں اور بطور انسان اپنے حصے کی حقیقی دلی اور دماغی خوشیاں سمیٹیں۔