جاوید اختر

مصنوعی ذہانت (اے آئی) میں ہونے والی برق رفتاری ترقی کے مدنظر ماہرین نے بیشتر شعبوں میں ملازمتوں کے ختم ہوجانے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ہندوستان میں یہ خدشہ درست ثابت ہونے لگاہے۔آن لائن پیمنٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنی پے ٹی ایم(Paytm)کی پیرینٹ کمپنی ‘ون 97کمیونیکیشنز’نے اپنے ایک ہزار سے زائد ملازمین کو ملازمت سے نکال دیا ہے، جو اس کی موجودہ افرادی قوت کا دس فیصد سے زیادہ ہے۔یہ ملک میں جدید ٹکنالوجی کمپنیوں میں بڑی تعداد میں ملازمین کو نکالے جانے کے معاملات میں سے ایک اور اس سال کسی کمپنی کی طرف سے ملازمین کو نکالنے کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ پے ٹی ایم کے بعد دیگر ٹکنالوجی کمپنیاں بھی اسی راہ پر آگے بڑھنے کے منصوبے بنارہی ہیں۔پے ٹی ایم کے ترجمان نے تقریباً ایک ہزار ملازمتوں کو ختم کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرٹیفیشیئل انٹیلی جنس(اے آئی) یا مصنوعی ذہانت کے استعمال کرنے کی وجہ سے سیلس اور انجینئرنگ کے شعبوں میں بیشتر ملازمتیں متاثر ہوئی ہیں۔ترجمان کا کہنا تھا،” ہم کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے اے آئی سے چلنے والی خود کار مشینوں کے ساتھ اپنے آپریشنز کو تبدیل کررہے ہیں۔

ترقی اور لاگت میں کارکردگی کو زیادہ بہتر بنانے کے لیے بار بار دہرائے جانے والے کاموں اور کردار کو ختم کررہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں آپریشنز اور مارکیٹنگ میں ہماری افرادی قوت میں معمولی کمی واقع ہوئی ہے۔”پے ٹی ایم کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ کمپنی مصنوعی ذہانت سے چلنے والی آٹو میشن کا استعمال کرکے ملازمین پر ہونے والے اخراجات میں دس سے پندرہ فیصد کی بچت کرسکے گی۔انہوں نے بتایا،”ہم ملازمین کے اخراجات میں دس سے پندرہ فیصد کی بچت کرسکیں گے کیونکہ اے آئی نے ہماری توقعات سے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔”دیگر کمپنیوں میں بھی ملازمین کی چھٹنیصرف پی ٹی ایم ہی نہیں ہندوستان میں دیگر کمپنیوں نے بھی رواں برس اپنے ملازمین کو بڑی تعداد میں نکال دیا۔ملازمین کی تعداد پر نگاہ رکھنے والے ایک ادارے لانگ ہاوس کنسلٹنگ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس سال نئی کمپنیوں نے تقریباً اٹھائیس ہزار ملازمین کو ملازمتوں سے نکال دیا۔ ان میں زیادہ تعداد اسٹارٹ اپ کمپنیوں کی تھی۔اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ دو سالوں کے مقابلے میں رواں سال ملازمتوں سے نکالنے کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ سن 2021میں صرف 4080افراد کو ملازمتوں سے نکالا گیا تھا جب کہ سن 2022میں یہ تعدادبیس ہزار کے قریب تھی۔ لیکن اس سال صرف چھ ماہ دوران ہی 28000 سے زیادہ افراد اپنی ملازمتوں سے محروم کردیے گئے۔تو کیا اے آئی ملازمتوں کو ختم کردے گی؟امریکی سائنسدان اور مشہور محقق بین گورٹسل، جن کو مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلجنس کے شعبے میں گُرو سمجھا جاتا ہے، نے چند ماہ قبل دعویٰ کیا تھاآئندہ چند برسوں میں مصنوعی ذہانت 80 فیصد انسانی ملازمتوں کی جگہ لے سکتی ہے۔برازیلی نژاد،56سالہ بین گورٹسل ‘سینگولیرٹی نیٹ‘ نامی کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو اور شریک بانی بھی ہیں۔ یہ ایک ایسا تحقیقی گروپ ہے، جو ”آرٹیفیشل جنرل انٹیلی جنس“ یا ‘انسانی فکری صلاحیتوں کی حامل مصنوعی ذہانت‘ تخلیق دینے کے لیے بنایا گیا تھا۔

انہوں نے فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے،مصنوعی ذہانت کو روکنے کے لیے کی جانے والی حالیہ کوششوں کی مذمت کی تھی۔ بین گورٹسل کا کہنا تھا کہ، ”اگر ہم چاہتے ہیں کہ مشینیں واقعی لوگوں کی طرح سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھیں، ہوشیار ہوں اور نامعلوم صورتحال سے نمٹنے میں اتنی ہی چست ہوں، جتنے کہ انسان ہیں تو انہیں اپنی تربیت اور پروگرامنگ سے آگے جا کر مسائل حل کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ ابھی ہم وہاں تک نہیں پہنچے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ ہم یہ سفر کئی عشروں کی بجائے صرف برسوں میں طے کر لیں گے۔“خیال رہے کہ مصنوعی ذہانت کے ‘چیٹ جی پی ٹی‘ جیسے پروگرام سامنے آنے کے بعد بعض ناقدین اس شعبے میں تحقیق پر کم از کم چھ ماہ کی پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

تاہم بین گورٹسل کا کہنا تھا کہ ایسی کسی بھی پابندی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔گورٹسل کا کہنا تھاکہ سماج کو آزاد ہونا چاہئے اور جس طرح انٹرنیٹ پرپابندی عائد نہیں کی گئی ہے اسی طرح اے آئی پر بھی روک نہیں لگائی جانی چاہئے۔ حالانکہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ آنے والے برسوں میں بڑی تعداد میں انسانی کام اے آئی کے ذریعہ انجام دیے جائیں گے۔وہ کہتے ہیں،” آپ آرٹیفیشیئل جینریٹیو انٹیلی جنس کے بغیر 80فیصد انسانی کاموں کو تو ختم ہی سمجھئے۔ چیٹ جی پی ٹی جیسا ابھی ہے، اس سے نہیں لیکن آنے والے کچھ سالوں میں ترقی یافتہ سسٹمز کے ذریعے۔ لیکن اس میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ ایک فائدہ ہے۔ جو کام کاغذوں پر ہوتے ہیں انہیں اب آٹومیٹ (خودکار) ہوجانے چاہئیں۔”(اے ایم این)