نئی دہلی: جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر محمد سلیم انجینئر نے آج ماہانہ پریس کانفرنس میں میڈیا کو خطاب کرتے ہوئے کسانوں کے احتجاج، بابری مسجد، بین مذہبی شادی کے خلاف آرڈیننس اور ملک میں بدعنوانی سے متعلق مختلف امور پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یو پی کا یہ آرڈیننس 2020 غیردستوری ہے اور یہ معاشرے کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے اور ایک خاص برادری کو نشانہ بنانے کی کوشش ہے۔ اسی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ آرڈیننس ہمارے آئین کی روح کے خلاف ہے۔اس سے ضمیر کی آزادی اور مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اس کی تبلیغ کے حق کو خطرہ ہے۔ کسی مسلم لڑکے کا ہندو لڑکیوں کے تعاقب کرنے کی فرضی داستان کو ”لوجہاد“ کا نام دینا انتہائی قابل مذمت ہے۔پروفیسر سلیم انجینئر نے کسان احتجاج سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ جماعت کسانوں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایم ایس پی، کنٹریکٹ فارمنگ اور ضروری اشیاء سے متعلق تینوں قوانین پارلیمنٹ میں بغیر صلاح و مشورے اور پارلیمانی اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے منظور کیے گئے ہیں۔ یہ اس بڑے منصوبے کا حصہ ہے جس میں کارپوریٹس اور ملٹی نیشنلز کے فائدے کے لئے ہندوستان کے زرعی نظام میں تبدیلی کی جارہی ہے۔ دراصل حکومت پرائمری اور اعلیٰ تعلیم، حفظان صحت اور انفراسٹرکچر کی بحالی کارپوریٹس اور ملٹی نیشنلز کے حوالے کرکے اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے دستبردار ہورہی ہے۔ کانفرنس میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے حوالے سے ملک میں پھیلی رشوت خوری اور ذاتی تعلقات کی بنیاد پر کسی کا کام کرنے کے معاملے میں ایشیائی ممالک میں ہندوستان کو سرفہرست درج کیے جانے پر سوالات پوچھے گئے۔اس کے جواب میں نائب امیر نے کہا کہ ایسی صورتحال کا پیدا ہونا ہمارے ملک کے لئے نہایت ہی شرمناک ہے۔ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ اخلاقی اقدار کے زوال اور خالق کے سامنے احتساب کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔اس لئے ہمیں معاشرے کو تقویٰ اور راستبازی کی بنیاد پر تعمیر کرنی چاہئے۔ اس سلسلے میں حکومت کو بھی رشوت کی روک تھام پر سختی سے عمل کرنا چاہئے اور رشوت و بد عنوانی کے مرتکب افراد کو سخت سزا دیئے جانے کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔

PRESS RELEASE