جاوید اختر

صحت عامہ کے لیے ایک بڑا خطرہ غذا میں شامل وہ صنعتی ٹرانس فیٹی ایسڈز ہیں، جن کے سبب ہر سال دنیا میں لاکھوں افراد دل کی مختلف بیماریوں کا شکار اور ہلاک ہو جاتے ہیں۔

چکنائی یا فیٹ انسانی خوراک کا ایک لازمی جزو ہے، جسے سائنسی زبان میں فیٹی ایسڈ بھی کہتے ہیں۔ کیمیائی حوالے سے فیٹی ایسڈز دو طرح کے ہوتے ہیں، سیچوریٹڈ اور نان سیچوریٹڈ۔ نان سیچوریٹڈ فیٹی ایسڈز کو ٹی ایف اے بھی کہا جاتا ہے، جو بہت سی اشیائے خوراک میں قدرتی طور پر بھی موجود ہوتے ہیں اور صنعتی پیمانے پر خوراک کی تیاری کی وجہ سے پروسیسڈ فوڈز میں شامل ہونے کے سبب صنعتی ٹرانس فیٹی ایسڈز یا مختصراﹰ ٹی ایف ایز کہلاتے ہیں۔

آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ ڈاکٹر کہتے ہیں آپ کے دل پر چربی چڑھ رہی ہے، آپ کا کولیسٹرول لیول بڑھ رہا ہے، اس لیے اپنی غذا میں چکنائی کم کر دیں۔ یہ چربی، مضر صحت چکنائی یا ٹرانس فیٹ کہلاتی ہے۔ زیادہ ترمصنوعی ٹرانس فیٹ جسے بناسپتی گھی یا ٹھوس چربی بھی کہا جاتا ہے، دراصل سبزیوں کے تیل میں ہائیڈروجن گیس کو شامل کر کے تیار کی جاتی ہے، جو کمرے کے درجہ حرارت میں ٹھوس شکل یعنی ”گھی‘‘ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ یہ تیل اور  بناسپتی گھی نسبتا سستے ہوتے ہیں اور جلد خراب بھی نہیں ہوتے، اس لیے اس سے تیار کی گئی کھانے کی اشیاء زیادہ عرصے استعمال کی جا سکتی ہیں۔

کھانے کی اشیاء تیار کرنے والی کمپنیاں ٹرانس فیٹس اس لیے استعمال کرتی ہیں کیونکہ ان کے استعمال سے اشیاء کی شیلف لائف لمبی ہو جاتی ہے اور یہ فیٹی ایسڈز سستے بھی ہوتے ہیں۔

آسٹریلیا میں چوہوں پر کی گئی ایک تحقیق کے مطابق زیادہ چکنائی والی چیزیں کھانے کے بعد ان چوہوں کا نہ صرف وزن بڑھا بلکہ ان کی يادداشت بھی کمزور ہونے لگی اور ایسا ہونے میں بہت زیادہ وقت بھی نہیں لگا۔ ایک ہفتے کے دوران ہی چوہوں کا حافظہ کمزور ہونے لگا۔ اس موضوع پر تحقیق کرنے والے نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی کی دواساز مارگریٹ مورس نے کہا، ’’ہم یہ دیکھ کر حیران ہیں کہ چکنائی والی چیزیں کتنی تیزی سے اثر کرتی ہیں ۔

اس ریسرچ کے لیے چوہوں کو کیک، بسکٹ اور ایسے روغنی کھانے کھلائے گئے، جو عام طور پر دفتر یا کالج کی کینٹین میں ملتے ہیں۔ ساتھ ہی انہیں خوب چینی والے مشروبات بھی پلائے گئے۔ انہیں معمول سے ہٹ کر پانچ گنا زیادہ کیلوریز دی گئیں۔

سائنسدانوں کے مطابق حیرانی کی بات یہ تھی کہ چوہوں کا وزن تو بعد میں بڑھا لیکن ان کے دماغوں پر اثر فوراﹰ ہونے لگا۔ مورس کہتی ہیں، ’’ایسی خوراک انسانوں پر بھی اسی طرح اثر انداز ہو سکتی ہے کیونکہ ان دنوں لوگ یہی سب کھا رہے ہیں، سستے اور روغنی کھانے جو ہر جگہ مل جاتے ہیں۔‘‘ تاہم یہ تحقیق ابھی انسانوں پر نہیں کی گئی ہے۔

ریسرچ کے دوران یہ بھی دیکھا گیا کہ چوہوں کے دماغ کا ’ہیپو کیمپس‘ نامی حصہ سوجن کا شکار ہونے لگا۔ یہ حصہ سمجھداری یا یادداشت کے لیے ذمہ دار ہوتا ہے۔ مورس نے بتایا، ’’ہم فی الحال اسے ثابت نہیں کر سکتے کہ یہ کس طرح ہو رہا ہے لیکن ہیپو کیمپس نامی دماغی حصہ جتنا سوجتا جائے گا، يادداشت اتنی ہی کمزور ہوتی رہے گی۔

عام زندگی میں استعمال ہونے والی مصنوعات جیسے بناسپتی گھی، بیکڈ فوڈز، چاکلیٹ، سموسے، پکوڑے، پراٹھے، بسکٹ، کینڈی، نوڈلز، پاستا اور کئی دیگر الٹرا پروسیس شدہ مصنوعات غذا میں ٹی ایف اے کا بڑا ذریعہ ہیں۔ رمضان کے دوران استعمال ہونے والی تلی ہوئی غذائیں بھی ٹی ایف اے کا بھرپور ذریعہ ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے رواں برس جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صنعتی ٹرانس فیٹ کے باعث دنیا بھر میں سالانہ دو لاکھ 78 ہزار انسان ہلاک ہو جاتے ہیں۔ زیادہ تر اس وجہ سے کہ یہ چکنائی خون کی شریانوں کو تنگ کر دیتی، دل کا دورہ پڑنے کے خطرے کو بہت زیادہ کر دیتی اور بالآخر کسی بھی انسان کی جان لے لیتی ہے۔

صنعتی ٹرانس فیٹی ایسڈز کے نتیجہ میں مختلف طرح کے سرطان اور دوران خون کی بیماریوں، خاص کر امراض قلب کی شرح میں بہت اضافہ ہو چکا ہے جب کہ  ذیابیطس یا شوگر کے مریضوں کا تناسب بہت تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ صنعتی ٹرانس فیٹس ذیابیطس، دماغی امراض، ہائپر ٹینشن، کئی طرح کے سرطان اور دیگر بیماریوں کی وجہ بن رہے ہیں۔ بچوں کے فارمولا دودھ تک میں صنعتی ٹرانس فیٹ پائے گئے، جو انتہائی تشویش ناک بات ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے سن دو ہزار اٹھارہ  میں ایک اپیل جاری کی تھی کہ کھانے کی اشیاء میں صنعتی طور پر تیار ہونے والے فیٹی ایسڈز کو سن دو ہزار تئیس تک دنیا بھر سے ختم کر دیا جائے۔ تب ایسے شواہد سامنے آئے تھے کہ صنعتی سطح پر تیار کی جانے والے ایسے چکنائی والے اجزا سے سالانہ نصف ملین افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس گیبریئسس کا یہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہنا تھا، ”اب اس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ یہ مادہ صحت کے لیے بہت بڑے خطرات کا باعث بنتا ہے اور اس سے صحت کے نظام پر بھاری اخراجات ہوتے ہیں‘‘۔

رپورٹ کے مطابق  2.8 بلین افراد کی مشترکہ آبادی والے 43 ممالک نے اب اس تناظر میں بہترین طرز عمل کی پالیسیاں نافذ کی ہیں لیکن اس دنیا کے تقریبا پانچ ارب انسان اب بھی ایسے فیٹی ایسڈز سے غیرمحفوظ ہیں۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ عوام اگر اپنی غذائی عادات بہتر بنا لیں، صنعتی ٹرانس فیٹ کو اپنی خوراک کا حصہ کم سے کم بنائیں، صحت مند زندگی گزاریں، تو صحت پر آنے والا خرچ بھی کم ہوگا اور ملکی معیشت بھی بہت بہتر ہو جائے گی۔(اے ایم این)