ستوتی مشرا
ہندوستان میں پہلی بار لیتھیم کے اہم ذخائر دریافت ہوئے ہیں جو کہ ملک کے ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی کے منصوبوں اور الیکٹرک گاڑیوں کی کوشش کے لیے اچھا اشارہ ہے۔لیتھیم ایک نایاب معدنیات ہے جو انتہائی ری ایکٹیو، ہلکا اور ایک چھوٹی جگہ میں توانائی کی بڑی مقدار کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ تمام خوبیاں اسے بیٹریوں میں استعمال کے لیے مثالی مواد بناتی ہیں۔عالمی سطح پر لیتھیم کی مانگ میں اضافہ دیکھا گیا ہے کیونکہ دنیا کے کئی ممالک کاربن کے اخراج کو کم کرنے اور ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ اس لیے توانائی کے ذخائر اہمیت رکھتے ہیں۔ہندوستان اب تک لیتھیم سمیت نکل اور کوبالٹ جیسی اہم معدنیات کے لیے غیر ملکی رسد پر انحصار کرتا رہا ہے کیوں کہ وہ توانائی ذخیرہ کرنے کی ٹیکنالوجی اور الیکٹرک گاڑیوں کی مارکیٹ کو بڑھانے کے اپنے پر عزم منصوبوں کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے مرکزی حکومت نے اعلان کیا کہ انہیں مرکزکے زیر انتظام جموں اور کشمیر کے ریاسی ضلع میں 59 لاکھ ٹن لیتھیم کے ذخائر ملے ہیں۔وزارت معدنیات کے سیکرٹری وویک بھاردواج نے نامہ نگاروں کو بتایا: ’ملک میں پہلی بار لیتھیم کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں اور وہ بھی جموں و کشمیر میں۔‘ وزیراعظم مودی کے خود انحصار ملک بنانے کے نعرے ’آتم نربھر‘ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بھاردواج نے کہا کہ اس اہم معدنیات کی دریافت سے موبائل فون اور شمسی توانائی پینل سمیت متعدد آلات کے لیے بیٹریوں کی پیداوار میں مدد ملے گی۔حکومت نے توانائی ذخیرہ کرنے کے قومی مشن کے لیے اہم معدنیات کی تحقیق اور ترقی کے لیے حال ہی میں ایک بڑا اقدام شروع کیا جس کا مقصد اگلی نسل کی توانائی ذخیرہ کرنے والی ٹیکنالوجی تیار کرنا ہے جس میں لیتھیم کا استعمال بھی شامل ہے۔حکومت نے ملک میں لیتھیم کی پیداوار کے مواقع تلاش کرنے کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کی تھی۔بھاردواج نے بتایا کہ ’ہم نے اپنی تلاش کے اقدامات کو اہم اور اسٹریٹجک معدنیات کی طرف موڑ دیا ہے اور یہ دریافت ہماری کوششوں کا ثبوت ہے۔
‘ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کا ایک اہم ذخیرہ عالمی سطح پر الیکٹرک گاڑیوں کی مارکیٹ میں خود کو ایک بڑے کھلاڑی کے طور پر پیش کرنے کے منصوبوں کو فروغ دے سکتا ہے۔تاہم نئے دریافت ہونے والے لیتھیم کو استعمال میں آنے میں ایک طویل عمل درکار ہوگا۔انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ کے سینئر پالیسی مشیر سدھارتھ گوئل کہتے ہیں: ’ہندوستان کے پہلے لیتھیم ذخائر کی دریافت ملک کی انرجی سکیورٹی اور الیکٹرک گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ کے عزائم کے لیے ایک مثبت نشانی ہے۔‘تاہم ان کے بقول: ’بین الاقوامی تجربہ بتاتا ہے کہ ماحول کے مطابق کان کی تیاری میں 10 سال یا اس سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے۔ قلیل مدت میں ہندوستان کو اب بھی اپنی 2030 کی ماحول دوست توانائی اور الیکٹرک گاڑیوں کے اہداف کے لیے اس اہم معدنیات کے حصول کے لیے حکمت عملی کی ضرورت ہے۔‘دہلی میں قائم ریسرچ آرگنائزیشن کلائمیٹ ٹرینڈس کی ڈائریکٹر آرتی کھوسلہ کا کہنا ہے کہ اگرچہ لیتھیم کی حالیہ دریافت ’حوصلہ افزا‘ ہے لیکن ان ذخائر کو ’قیاس شدہ زمرے‘ میں رکھا گیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس مقام پر معدنیات کے معیار کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے کہا: ’آگے بڑھنے سے پہلے اس کی فزیبلٹی کو جانچنے اور اس قیاس شدہ وسائل کو قابل اعتماد کیٹیگری میں تبدیل کرنے کے لیے ابتدائی تلاش اور اس میں اضافے کے امکانات کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔‘حکومت کا ہدف ہے کہ 2030 تک ملک میں فروخت ہونے والی تمام گاڑیوں کی کل مارکیٹ کا 30 فیصد حصہ الیکٹرک گاڑیاں پر مشتمل ہو۔ابھی تک لیتھیم ہی الیکٹرک گاڑیوں کے لیے بیٹریاں بنانے کا واحد قابل اعتماد آپشن ہے کیوں کہ اس میں اعلی کثافت اور طویل عرصے تک چارج برقرار رکھنے کی صلاحیت موجود ہے۔دنیا میں لیتھیم کے نصف سے زیادہ ذخائر تین جنوبی امریکی ممالک سے آتے ہیں۔دوسری طرف چین لیتھیم آئن بیٹریوں کی تیاری میں سرفہرست ہے۔
دنیا میں اس طرح کی کل بیٹریوں میں سے تین چوتھائی سے زیادہ چین تیار کرتا ہے۔ ہندوستان ملک میں استعمال ہونے والے کل لیتھیم کا تقریباً 80 فیصد درآمد کرتا ہے۔ہندوستان آسٹریلیا اور ارجنٹائن سے لیتھیم سمیت کئی دیگر معدنیات حاصل کرتا ہے۔ اس سے قبل 2021 میں جنوبی ریاست کرناٹک میں لیتھیم کا ایک چھوٹا ذخیرہ ملا تھا۔ملک کی قابل تجدید توانائی میں منتقلی کے لیے بھی لیتھیم کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ قابل تجدید ٹیکنالوجیز جیسے کہ شمسی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی لاگت میں بڑی کمی نے انہیں حالیہ برسوں میں فوسل ایندھن کے ساتھ مسابقتی بنا دیا ہے۔تاہم توانائی کو مؤثر ذخیرہ کرنے کی جھنجھٹ کئی ممالک کے لیے توانائی کے ان ماحول دوست ذرائع کو اپنانے کے لیے ایک چیلنج بنے ہوئی ہے اور اس کے لیے کم لاگت حل کی ضرورت ہے۔اس مقصد کے لیے لیتھیم آئن بیٹریاں سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہیں اور 1990 کی دہائی سے ان کی قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔دوسری جانب ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ جیسے جیسے ہندوستان نئے دریافت ہونے والے ذخائر کو نکالنے کرنے کی تیاری کر رہا ہے جموں اور کشمیر جیسے ہمالیائی خطے میں کان کنی اپنے ساتھ کئی چیلنجز بھی لائے گی۔ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ (ڈبلیو آر آئی) انڈیا میں الیکٹرک موبلٹی کے ایک سینئر مینیجر ڈاکٹر پروین کمار کا کہنا ہے کہ اس کی مزید کان کنی کے لیے بھی ’متوازن تجزیہ کی ضرورت ہوگی جو خطے کی ماحولیاتی حساسیت کو مدنظر رکھے۔‘لیتھیم جیسی معدنیات کی کھدائی کے ماحولیاتی اثرات پر ارجنٹائن سمیت دنیا کے کئی حصوں میں مظاہرے ہوئے ہیں۔لیتھیم سخت چٹانوں اور زیر زمین نمکین پانی کے ذخائر سے نکالا جاتا ہے اور اس عمل کے لیے پانی کا وسیع استعمال ہوتا ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادہ مقدار خارج ہوتی ہے۔فرینڈز آف دی ارتھ کی ایک رپورٹ کے مطابق لیتھیم کا اخراج لامحالہ مٹی کو نقصان پہنچاتا ہے اور ہوا کی آلودگی کا سبب بنتا ہے۔ہمالیہ ملک کے سب سے زیادہ ماحولیاتی حساس مقامات میں سے ایک ہے اور ایک اور ریاست ہماچل پردیش پہلے ہی کان کنی کے منصوبوں کے تباہ کن اثرات کا مشاہدہ کر رہی ہے۔حال ہی میں ہمالیہ کے دامن میں جوشی مٹھ قصبے میں بڑے پیمانے پر زمین دھنسے جیسے واقعات دیکھے گئے ہیں جس کی وجہ سے 800 سے زیادہ گھروں میں دراڑیں پڑ گئیں اور سینکڑوں لوگ پناہ گاہوں میں منتقل ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔علاقے کے سماجی کارکن اور ماہرین اس تباہی کا ذمہ دار ’بے قابو ترقیاتی منصوبوں‘ کو قرار دیتے ہیں۔ادھر لیتھیم انڈسٹری ایسوسی ایشن کی پیشن گوئی کے مطابق 2020 سے 2030 تک لیتھیم کی عالمی مانگ میں تقریباً 761 فیصد اضافہ متوقع ہے۔2021 میں عالمی لیتھیم کی مارکیٹ کا حجم 7.1 ارب ڈالر تھا اور 2028 تک اس کی مالیے 15.45 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔اسی رپورٹ میں روشنی ڈالی گئی ہے کہ الیکٹرک گاڑیوں کی پیداوار میں اضافے کی بدولت 2010 سے اس کی طلب میں 3000 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ہندوستان سن 2025 تک 76 گیگا واٹ بجلی شمسی اور ہوا سے تیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور یہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں لیتھیم ایک اہم کردار ادا کرے گا۔(اے ایم این)