ارضی بنجرپن کو روکنے کے لئے ریاض میں عالمی کانفرنس
عندلیب اختر
خشک سالی اور بنجرپن شدت اختیار کرتے ہوئے زندگیوں کے لئے ایسے خاموش قاتل بنتے جا رہے ہیں جس سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں ہے۔خشک سالی ایک فطری مظہر ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی اور ناپائیدار ارضی انتظام کے باعث حالیہ دہائیوں میں اس کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ 2000 کی دہائی کے بعد دنیا میں خشک سالی کے واقعات کی رفتار اور شدت میں تقریباً 30 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس سے زراعت، آبی تحفظ اور 1.8 ارب لوگوں کے روزگار کو خطرات لاحق ہیں جبکہ غریب ترین ممالک اس مسئلے سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔خشک سالی محدود ہوتے وسائل بشمول پانی پر جنگوں کا سبب بھی بن سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی بھی دیکھنے کو ملتی ہے کیونکہ لوگ مزید پیدواری مقامات کا رخ کرنے لگتے ہیں۔’گزشتہ تین سال میں 30 سے زیادہ ممالک نے اپنے ہاں خشک سالی کے باعث ہنگامی حالات کے نفاذ کا اعلان کیا۔ ان میں بھارت اور چین سے لیکر امریکہ، کینیڈا اور سپین جیسے بلند آمدنی والے ممالک اور یوروگوئے، جنوبی افریقہ اور انڈونیشیا جیسے ترقی پذیر ملک بھی شامل ہیں۔پانی کی قلت کے باعث یورپ کے دریائے رائن میں اناج کی نقل و حمل متاثر ہوئی اور وسطی امریکہ کی نہر پانامہ میں پانی کی سطح کم ہو جانے کے باعث بین الاقوامی تجارت کا نقصان ہوا۔ اسی طرح جنوبی امریکہ کے ملک برازیل میں پن بجلی کی مقدار میں کمی دیکھنے کو ملی جو اپنی ضرورت کی 60 فیصد سے زیادہ بجلی پانی سے پیدا کرتا ہے۔ اب دنیا میں ایسی جگہوں پر بھی خشک سالی دیکھنے کو مل رہی ہے جہاں پہلے اس کا کبھی مشاہدہ نہیں کیا گیا۔ کوئی بھی ملک اس مسئلے سے محفوظ نہیں ہے۔ 2050 تک دنیا کی تین چوتھائی آبادی یا تقریباً سات ارب لوگ خشک سالی سے کسی نہ کسی طور متاثر ہوں گے۔
ارضی بنجر پن اور پسماندگی
خشک سالی کم ہی کسی ایک جگہ اور وقت سے مخصوص ہوتی ہے اور اس کا سبب محض بارشوں کی کمی نہیں ہوتا بلکہ کئی طرح کے پیچیدہ عوامل مشترکہ طور پر بھی اس کا سبب ہوتے ہیں جو عام طور پر موسمیاتی تبدیلی یا ناقص ارضی انتظام سے جنم لیتے ہیں۔مثال کے طور پر اگر کسی پہاڑی علاقے میں برف ختم ہو جائے تو وہاں کی زمین فوری طور پر بنجر ہو جاتی ہے۔ ایسے میں یہ زمین موسمی شدت کے واقعات کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور وہاں خشک سالی اور سیلاب آنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔جب یہ آفات آتی ہیں تو ان کے نتیجے میں کئی طرح کے تباہ کن اثرات ہوتے ہیں، گرمی کی لہریں اور سیلاب انتہائی شدت اختیار کر لیتے ہیں جس سے لوگوں کی زندگی اور روزگار کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے اور اس کی طویل مدتی انسانی، سماجی اور معاشی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ایک کے بعد دوسری خشک سالی کے نتیجے میں آبادیوں، معیشتوں اور ماحولیاتی نظام کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ نہیں ہو پاتا۔ ایسے میں ارضی بنجرپن اور پسماندگی کا سلسلہ تقویت پکڑتا رہتا ہے۔دنیا میں تقریباً 70 فیصد دستیاب تازہ پانی ایسے لوگوں کے زیراستعمال ہوتا ہے جن کی زندگی کا دارومدار زمین پر ہے۔ ان میں بڑی تعداد کم آمدنی والے ممالک کے کسانوں کی ہے جنہیں بہت محدود تعداد میں متبادل روزگار میسر ہوتے ہیں۔ ان میں 2.5 ارب لوگ نوجوان ہیں۔پانی کے بغیر ان کے پاس نہ تو خوراک ہو گی اور نہ ہی وہ زمین کی بنیاد پر روزگار تک رسائی پا سکیں گے۔ اس کا نتیجہ نقل مکانی، عدم استحکام اور تنازعات کی صورت میں نکلے گا۔’
استحکام کے لیے منصوبہ بندی
انسان کی لائی موسمیاتی تبدیلی، ناقص ارضی انتظام اور مسئلے سے نمٹنے کے لیے امدادی طریقہ کار پر زور دیے جانے کے باعث خشک سالی مزید سخت اور تیز رفتار ہوتی جا رہی ہے۔ عام طور پر نچلی سطح پر پانی کی فراہمی میں کمی سے پیدا ہونے والے شدید موسمی حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید منصوبہ بندی اور مطابقت پذیری درکار ہے۔زمبابوے میں نوجوانوں کے زیرقیادت نچلی سطح پر کام کرنے والی ایک تنظیم ملک میں ایک ارب درخت لگا کر زمین کو دوبارہ کارآمد بنانے کے لیے کوشاں ہے جبکہ غرب الہند کے ملک ہیٹی میں کسان یہ یقینی بنانے کے لیے درختوں پر شہد کی مکھیاں پال رہے ہیں کہ ان درختوں کو کاٹا نہ جا سکے جن پر یہ انحصار کرتی ہیں۔ مالی میں ایک نوجوان کاروباری خاتون مورنگا درخت کی پیداوار کو فروغ دے کر لوگوں کے لیے روزگار پیدا کر رہی ہے اور علاقے میں معاشی استحکام لانے کے لیے کوشاں ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات سے انسانی مصائب کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے اور یہ محض امداد اور بحالی کی سرگرمیوں سے کہیں زیادہ سستے ہوتے ہیں۔
ریاض میں بنجرپن روکنے کے لئے عالمی کانفرنس
ارضی بنجر پن کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کے ایگزیکٹو سیکرٹری ابراہیم تھیا نے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منعقد کنونشن کے ریاستی فریقین کی 16 ویں کانفرنس میں دنیا کو خشک سالی اور بنجرپن کے خطرات سے اگاہ کیا۔اس کانفرنس میں دنیا کو خشک سالی سے تحفظ دینے کے لیے ایک نیا معاہدہ طے پایا ہے۔ یہ معاہدہ اس مقصد کے لیے متاثرہ علاقوں میں محض امدادی سرگرمیوں کے بجائے خشک سالی سے بچنے کے لیے پیشگی اقدامات کی تیاری میں معاون ہو گا۔ اس کے علاوہ، کانفرنس کے شرکا ارضی بنجرپن کے باعث ہونے والے زمینی ضیاع کا سلسلہ روکنے اور ارضی بحالی کے بہترین طریقہ ہائے کار پر بات چیت بھی کی۔
دو ہفتوں تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں شرکا نے ارضی انحطاط، بنجرپن اور خشک سالی کو روکنے کے بہترین طریقوں پر غوروخوض اور انہیں قومی پالیسیوں کا حصہ بنانے کے علاوہ ان مسائل پر بین الاقوامی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ اگرچہ اس موقع پر خشک سالی کو روکنے کے حوالے سے عالمی معاہدے کی نوعیت پر اتفاق نہیں ہو سکا تاہم اس معاملے میں ایک مضبوط سیاسی اعلامیے کی منظوری عمل میں آئی اور مستقبل کے حوالے سے 39 اہم فیصلے بھی کیے گئے۔’یو این سی سی ڈی’ کی جانب سے دنیا میں خشک سالی سے متاثرہ اور مستقبل میں ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے مقامات سے متعلق جاری کردہ نئی اٹلس کے مطابق یہ مسئلہ 1.8 ارب لوگوں کو متاثر کر رہا ہے۔ خشک سالی سے ہر سال 300 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے اور زراعت، توانائی اور پانی کے شعبوں کو اس سے سنگین خطرات لاحق ہیں۔’کاپ 16′ اب تک کی سب سے بڑی اور متنوع ارضی کانفرنس تھی جس میں 20 ہزار سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی جن میں سے 3,500 کا تعلق سول سوسائٹی سے تھا۔ اس موقع پر 600 سے زیادہ اجلاس ہوئے اور غیرریاستی کرداروں کو بھی کنونشن کے کام میں شامل کیا گیا۔ نوجوانوں اور مالیات، فیشن، زرعی خوراک اور ادویہ جیسے صنعتی شعبوں کے 400 سے زیادہ نمائندوں نے بھی کانفرنس میں شرکت کی۔
کانفرنس میں خشک سالی پر مستحکم طور سے قابو پانے کے لیے بین الاقوامی مشاہدہ گاہ کا ابتدائی نمونہ پیش کیا گیا۔ مصنوعی ذہانت کی مدد سے کام کرنے والا یہ پلیٹ فارم ممالک کو کڑی خشک سالی کا اندازہ لگانے اور اس سے نمٹں ے کی صلاحیت بڑھانے میں مدد دے گا۔بزنس 4 لینڈ اقدام کے تحت خشک سالی اور ارضی انحطاط کو روکنے کے لیے نجی شعبے کو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔قدیمی مقامی لوگوں اور مقامی آبادیوں کے اجلاس طے کیے گئے تاکہ ارضی مسائل سے نمٹنے میں ان کے مخصوص نقطہ نظر اور مسائل کو مناسب توجہ مل سکے۔
خشک سالی کے خلاف عالمی معاہدہ
‘کاپ 16’ میں ممالک نے مستقبل میں خشک سالی کے خلاف عالمی معاہدے کی بنیاد ڈالنے کے لیے بامعنی کام کیا جو 2026 میں منگولیا میں ہونے والی ‘کاپ 17’ میں پایہ تکمیل کو پہنچنے کا امکان ہے۔کانفرنس میں بات چیت کے ذریعے اہم موضوعات پر 30 سے زیادہ فیصلے کیے گئے۔ ان مسائل میں مہاجرت، گرد کے طوفان، ارضی مسائل پر قابو پانے میں سائنس کا کردار، تحقیق و اختراع اور ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے خواتین کو بااختیار بنانا شامل ہیں۔بعض فیصلوں کے ذریعے نئے موضوعات کانفرنس کے ایجنڈے کا حصہ بنے جن میں ماحولیاتی اعتبار سے پائیدار زرعی غذائی نظام اور گھاس کے میدان خاص طور پر نمایاں ہیں۔ دنیا میں زرعی اراضی کہلانے والی تمام زمین کا 54 فیصد حصہ ایسے ہی میدانوں پر مشتمل ہے۔ ان میدانوں کے بنجرپن سے دنیا میں تقریباً 17 فیصد خوراک کی فراہمی کو خطرہ لاحق ہے۔
کانفرنس میں ممالک نے دنیا بھر کے ارضی مسائل سے نمٹنے کے لیے 12 ارب ڈالر دینے کے وعدے کیے۔ ان وسائل کا بیشتر حصہ انتہائی
غیرمحفوظ ممالک پر خرچ کیا جائے گا۔ اس وقت دنیا میں دو ارب لوگ ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں معیشت میں گلہ بانی کا نمایاں حصہ ہے۔ ارضی انحطاط، بنجرپن اور خشک سالی سے ان آبادیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
سعودی عرب کے وزیر ماحولیات، پانی و زراعت اور ‘کاپ 16’ کے صدر عبدالرحمان الفادلی نے کہا کہ یہ اجلاس زمین کی بحالی اور خشک سالی کے خلاف مستحکم اقدامات سے متعلق عالمگیر آگاہی بیدار کرنے کے حوالے سے بھی فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ کانفرنس میں لیے جانے والے فیصلوں سے ان مسائل پر قابو پانے کی کوششوں کو بہتر بنایا جا سکے گا اور دنیا بھر میں لوگوں کی بہبود میں اضافہ ہو گا۔اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل اور ‘یو این سی سی ڈی’ کے ایگزیکٹو سیکرٹری ابراہیم تھیا نے زمین اور خشک سالی سے متعلقہ مسائل پر قابو پانے کے عالمگیر طریقہ کار میں نمایاں تبدیلی کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع کے نقصان، غذائی عدم تحفظ، نقل مکانی اور عالمگیر عدم استحکام جیسے مسائل آپس میں جڑے ہیں جن سے نمٹنے کے لیے جامع اور مربوط طریقہ کار کی ضرورت ہے۔مستقبل کی منصوبہ بندی۔کانفرنس میں شرکا کو بتایا گیا کہ 2030 تک ایک ارب ہیکٹر سے زیادہ زمین کی زرخیزی کو بحال کرنے اور خشک سالی سے تحفظ کے لیے 2.6 ٹریلین ڈالر کی ضرورت ہو گی۔کانفرنس میں بڑے پیمانے پر ارضی بحالی اور خشک سالی سے بچاؤ کی تیاری کے لیے کے لیے نئے وعدے بھی کیے گئے۔ابراہیم تھیا نے کانفرنس کے اختتام پر پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ ارضی مسائل کا حل انسان کی دسترس میں ہے۔ یہاں جو فیصلے لیے جائیں گے وہ ناصرف کرہ ارض کے مستقبل کا تعین کریں گے بلکہ لوگوں کی زندگی اور روزگار کا دروامدار بھی انہی پر ہو گا۔AMN
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔